Chitral Times

Apr 24, 2024

ﺗﻔﺼﻴﻼﺕ

ذرا سوچئے…….ماحولیاتی تبدیلی ………تحریر ہما حیات سید چترال

Posted on
شیئر کریں:

یو ں تو ماحولیاتی تبدیلی نے ہمارے گلشیرز سے لے کر ذرخیز زمینوں تک کو برباد کردیا ہے لیکن اب یہ ہمیں ایک اور بڑے نقصان سے دوچار کیا ہے ۔ کہ جس کی بھر پائی مشکل ہی نہیں بلکہ ناممکن ہے ۔ اس با ر ماحولیاتی تبدیلی کا شکار جنگلی حیات ہیں ۔
دنیا کے نایاب جانوورں میں سے ایک جانور Ibex بھی ہے جو کہ پاکستان کے شمالی علاقے چترال میں پائی جاتی ہے لیکن ماحولیاتی تبدیلی کی وجہ سے یہ بھی خاموش احتجاج کرنے پر مجبور ہو گئے ہیں۔ کئی سالوں کی مسلسل خشک سالی کی وجہ سے شمالی علاقے کے ان پہاڑوں سے گھاس پوس اور چشمے ختم ہو گئے ہیں جہا پر یہ جانور رہتے ہیں جسکی وجہ سے یہ فاقہ کشی کا شکار ہو گئے ہیں۔ ا کے ساتھ ساتھ بارش نہ ہونے کی وجہ سے کئی بیماریاں پیدا ہو گئی ہے کہ جن میں انکھو ں کی بیماری بھی شامل ہے اس بیماری میں مبتلا ہوکر کئی جانور نابینا ہو گئے اور پہاڑوں میں گر کر ہلاک ہوگئے۔ اب اس نایاب جانور کی جان کی قیمت کا اندازہ وہ لوگ بخوبی لگا سکتے ہیں جو ان کی تحفظ کے لئے کام کرتے ہیں۔

چترال کے لوگوں کے لئے ان کی اہمیت تب سے ہے جب وہ ان کا شکار کرتے تھے۔ اور عام خوراک کے طور پر استعمال کرتے تھے۔ ایک دفعہ میری ملاقات ایک معزز خاتون سے ہوئی جس کی عمر اس وقت 108 سال تھی مجھے اچھی طرح یاد ہے کہ وہ خاتون بڑی اطمنان سے بیٹھ کر اپنی تسبیخ کے دانوں کو ایک دھاگے میں پرورہی تھی۔جب میں نے غور سے دیکھا تو ان کے ہاتھو ں میں کوئی لرزش نہ تھیں نہ ہی انھیں تیز روشنی کی ضرورت تھی۔ اس عمر میں تو انسان خود سے اٹھ کر پانی نہیں پی سکتا جب میں نے اس بات پر حیرانگی کا اظہار کیا۔تو انھوں نے بڑے فخریہ انداز میں مجھے بتایا کہ جب وہ چھوٹی تھی تو ان کے والد صاحب Ibex کا شکار کرتے تھے۔ او رگھر میں اکثر عام خوراک کے طور پر استعمال ہوتا تھا۔انھوں نے کہا کہ ان کے جسم کا فولاداسی خوراک سے بنا ہے۔ تو وہ اج کسی اور پر کیسے انحصار کر سکتی ہیں ۔ ان کے اس بات پر میں بے اختیار کھلکھلا کر ہنس پڑی۔ آبادی بڑھنے کے ساتھ ساتھ انکی تعداد بھی کم ہوتی چلی گئی۔ جس کی وجہ سے ان کے شکار پر پابندی لگائی گئی تھی۔ لیکن اب ماحولیاتی تبدیلی کی وجہ سے یہ آہستہ آہستہ ختم ہوتے جا رہے ہیں۔ اگر یہ سلسلہ اسی طرح جاری رہا تو آنے والی نسل تک انکی پہچان پرقرار رکھنے کے لئے ہمیں تصویروں کی مدد لینی ہوگی۔
Ibex کے علاوہ برفانی چیتا بھی ہجرت پر مجبور ہے۔ اس نے پامیر کا رخ کیا ہے۔ اب ان سب حالات سے نمٹنے کے لئے ہمارے پاس واحد راستہ یہ ہے کہ ہم جلد ازجلد اس مسلے پر غور کریں اور کوئی ٹھوس اقدامات کریں کہ جن سے ہم نہ صرف اپنے علاقے کو بچا سکیں بلکہ اپنے اثاثوں کو بھی تحفظ فراہم کر سکیں۔ اور پھر ذرا سوچئیے۔۔۔۔۔ چترالی قوم کے ایک مشہور دانشور کا قول ہے۔۔۔۔۔۔۔۔
شیرو پوستو انجی، تونیشو زہنہ بیتی ، انگریزانان قسمہ کوسے۔


شیئر کریں:
Posted in تازہ ترین, خواتین کا صفحہTagged
14287