Chitral Times

Apr 20, 2024

ﺗﻔﺼﻴﻼﺕ

چند قطرے ہی کافی تھے پشیمانی میں………..زبیر

Posted on
شیئر کریں:

چند قطرے ہی کافی تھے پشیمانی میں

تو تو سیلاب اٹھا لایا ہے نادانی میں

ہر اک دریا کو معلوم ہے انجام ہے کیا

سرکشی کتنی بھلا کیوں نہ ہو روانی میں

زنا حلال ہوا ہے بھری عدالت میں

جبر حرام کہاں تھا قانون دانی میں

لویہ عدل بھی ہم جنسیت پہ قربان ہوا

عقل کا فتور ہے اعضائے جسمانی میں

بخل برتاؤ کا لہجے میں اتر آتا ہے

تنگدلی چھپتی نہیں ہے خوش بیانی میں

ہر اک کردار ہدایت کار کو پہچانتا ہے

موڑ کیسے ہی بھلا کیوں نہ ہو کہانی میں

چمن میں رنگ و بو کا امتزاج فطری ہے

قطع برید بھی لازم ہے باغ بانی میں

رب تو رزاق و رازق ہے، دلدار بھی ہے

شکوہ سنج تو ہی ہو بیٹھا ہے تن آسانی میں

زندگی کے لئے مر مر کے جیے جاتا ہے

کچھ بتا تو سہی کیا ہے اس دیوانی میں


شیئر کریں:
Posted in شعر و شاعریTagged
14288