Chitral Times

Apr 25, 2024

ﺗﻔﺼﻴﻼﺕ

آئی ایم لکی ٹو بی اے ٹیچر…………سوسن پری کریمی

Posted on
شیئر کریں:

کل 5؍ اکتوبر کو عالمی یوم استاد بڑے جوش و جذبے سے منایا گیا۔ مجھے اپنی ایک اسٹوڈنٹ کی طرف ایک تہنیتی کارڈ ملا۔ جس نے مجھے ان سطور کو لکھنے پر مجبور کیا۔ میری اسٹوڈنٹ اپنے کارڈ میں مجھ سے مخاطب تھی: ’’مس سوسن! آئی ایم لکی ٹو بی یور اسٹوڈنٹ۔ یو آر مائی رول ماڈل۔ گاڈ بلیس یو۔‘‘ یہ الفاظ نہیں بلکہ احساسات اور جذبات اور ایک شاگرد کا اپنے استاد کے لیے خلوص کے ایک نہ تھمنے والے سلسلے تھے۔ ان الفاظ میں کھو کر بے اختیار دل نے کہا: ’’آئی ایم لکی ٹو بی اے ٹیچر۔‘‘
عظیم فاتح سکندر اعظم نے کہا تھا:
’’میرے والدین مجھے عرش سے فرش (یعنی آسمان سے زمین) پر لے آئے ہیں اور میرا اُستاد مجھے فرش سے عرش (یعنی زمین سے آسمان) کی طرف لے جاتا ہے۔‘‘
یہ قول دراصل انسان کی زندگی میں اساتذہ کی اہمیت کو اُجاگر کرتا ہے۔ انسان کی زندگی میں چند افراد ایسے ہوتے ہیں جو اس کی زندگی میں نمایاں کردار ادا کرتے ہیں۔ انسان اُن میں رہنمائی تلاش کرتا رہتا ہے، ان کے بتائے ہوئے اصول اور ان کی تعلیمات انسان کے لیے مشعلِ راہ بن جاتی ہیں۔ اساتذہ کا نام ایسے ہی افراد کی فہرست میں سرِفہرست ہوتا ہے جو لوگوں کی زندگی میں مثبت اثرات مرتب کرتے ہیں۔
علامہ اقبالؒ نے جنوری 1902ء میں ’’ مخزن ‘‘ نامی ایک رسالے میں ’’ بچوں کی تعلیم و تربیت ‘‘ کے عنوان سے ایک مقالہ تحریر کیا، جس میں آپؒ لکھتے ہیں کہ:
’’تمام قومی عروج کی جڑ بچوں کی تعلیم ہے………… اور معلّم (استاد) حقیقت میں قوم کے محافظ ہیں کیونکہ آئندہ نسلوں کو سنوارنا اور ان کو ملک کی خدمت کے قابل بنانا، انہی کی قدرت میں ہے۔سب محنتوں سے اعلیٰ درجہ کی محنت اور سب کارگزاریوں سے زیادہ بیش قیمت کارگزاری ملک کے معلّموں (اساتذہ) کی کارگزاری ہے۔‘‘
عالمی سطح پر ہر سال 5؍ اکتوبر کو World Teacher’s Day یعنی بین الاقوامی یومِ اساتذہ شایانِ شان طریقے سے منایا جاتا ہے۔ اس حوالے سے آج ہمارے لیے یہ بہترین موقع ہے کہ ہم قوم کے ان عظیم معماروں کو، جو ہمارے بچوں کے مستقبل کی تعمیر کرتے ہیں، خراجِ تحسین اور خراجِ عقیدت پیش کریں کہ جو انتھک محنت، پُر اثر کلمات اور اپنی پیار و شفقت سے بچوں میں اخلاقی کردار کی تشکیل کرتے ہیں۔ استاد کی شخصیت بھی بچّے پر گہرا اثر ڈالتی ہے۔ جو استاد خود اعلیٰ اخلاق اور علمی خوبیوں کے حامل ہوتے ہیں، اُن سے تعلیم پانے والے بچّے بھی بااخلاق اور علم کے شوقین ہوتے ہیں۔ آج ہم ان تمام اساتذہ کو اور ان کے اہلِ خانہ کو اِس عظیم خدمت پر سلام پیش کرتے ہیں اور اس اہم موقع پر ایک استاد ہونے کی حیثیت سے اپنی خوش قسمتی پر بھی نازاں ہونا ایک فطری عمل ہے۔ اس لیے میں نے اپنے کالم کا عنوان ہی کچھ ایسا رکھا کہ ’’آئی ایم لکی ٹو بی اے ٹیچر‘‘۔
اسلام میں استاد کی اہمیت کا اندازہ اس بات سے لگایا جا سکتا ہے کہ قرآن پاک نے رسولؐ کو اور تمام پیغمبروں کو ’’ معلّم ‘‘یعنی استاد کا درجہ دیا ہے۔ جیسا کہ اللہ تعالیٰ قرآن کی سورہ آلِ عمران کی آیت نمبر 164 میں فرماتا ہے کہ:
مفہوم: ’’وہ (پیغمبر) اُن (لوگوں) کو کتاب اور حکمت کی تعلیم دیتا ہے۔ ‘‘ (القرآن)
اور پھر نہ صرف رسول اور پیغمبر بلکہ قرآن میں خود اللہ تعالیٰ نے اپنے آپ کو بھی معلّم قرار دیا ہے۔ جیسا کہ سورہ رحمن کی آیت نمبر ایک تا چار ارشادِ باری تعالیٰ ہے کہ:
’’خدائے رحمان نے قرآن کی تعلیم دی، (اُس نے) انسان کو پیدا کیا اور اسے بیان سکھایا۔‘‘ (القرآن)
ایک اعلیٰ استاد وہ ہستی ہے جو بچوں کو اس قدر متاثر کرتی ہے کہ بچّہ اُسے اپنا شریکِ راز بنا لیتا ہے۔ ایک بہترین استاد بچوں کی روح تک اُتر جاتا ہے اور اُسے دین اور دُنیا کی حقیقتوں سے روشناس کراتاہے۔ لیکن ان سب کے باوجود اپنی سوسائٹی میں یا اپنے پورے ملک کی بات کریں تو قدرے مایوسی ہو جاتی ہے کہ آج اساتذہ کے ساتھ کیا سلوک ہو رہا ہے۔ ہم اگر ترقی یافتہ ملکوں کی طرف دیکھتے ہیں تو ہمیں ایک ہی چیز نظر آتی ہیں کہ وہاں وہ اپنے اساتذہ کی قدر کرتے ہیں۔ کچھ دن پہلے سوشل میڈیا پر یہ خبر مجھے حیرت میں ڈالنے کے لیے کافی تھی۔ خبر میں کہا گیا تھا:
’’جرمنی میں اساتذہ کو سب سے زیادہ تنخواہ دی جاتی ہے۔ پچھلے دنوں ججز، ڈاکٹرز اور انجینئرز نے احتجاج کیا اور اساتذہ کے برابر تنخواہ کا مطالبہ کر دیا، یہ خبر جرمنی کی چانسلر تک پہنچی تو جرمن چانسلر انجیلا مورکل نے بڑا ہی خوبصورت جواب دیا۔ ’’میں آپ لوگوں کو ان کے برابر کیسے کردوں جنہوں نے آپ کو اس مقام تک پہنچایا۔‘‘
جبکہ ہمارے ملک میں تو اس کے بالکل برعکس ہے۔ ایک اور واقعہ جو گزشتہ دنوں پڑھنے کا موقع ملا۔ نوجوان ادیب عبدالکریم کریمی نے اپنے ایک کالم میں لکھا تھا:
’’ایک دفعہ ابنِ انشاء ٹوکیو کی ایک یونیورسٹی میں کسی مقامی استاد سے محوِ گفتگو تھے۔ جب گفتگو اپنے اختتام پر پہنچی تو وہ استاد ابنِ انشاء کو الوداع کرتے ہوئے یونیورسٹی کے باہر تک چل پڑا۔ ابھی یونیورسٹی کے حدود میں ہی تھے کہ دونوں باتیں کرتے کرتے ایک مقام پر کھڑے ہوگئے۔ اس دوران ابنِ انشاء نے محسوس کیا کہ پیچھے سے گزرنے والے طلباء اُچھل اُچھل کر گزر رہے ہیں۔ باتیں ختم ہوئیں تو ابنِ انشاء اجازت لینے سے پہلے یہ پوچھے بغیر نہ رہ سکے کہ ’’محترم ہمارے پیچھے سے گزرنے والا ہر طالب علم اُچھل اُچھل کر کیوں گزر رہا ہے اس کی کوئی خاص وجہ؟‘‘ ٹوکیو یونیورسٹی کے استاد نے بتایا کہ ’’سورج کی روشنی سے ہمارا سایہ ہمارے پیچھے پڑ رہا ہے اور یہاں سے گزرنے والا ہر طالب علم نہیں چاہتا کہ اس کے پاؤں اس کے استاد کے سایہ پر پڑیں۔ اس لیے ہمارے عقب سے گزرنے والا ہر طالب علم ادب کا مظاہرہ کرتے ہوئے اُچھل اُچھل کر گزر رہا ہے۔‘‘
ابنِ انشاء کہتے ہیں کہ میں نے اس دن اس قوم کی ترقی کا راز جان گیا۔ اللہ کرے عزت و احترام کا یہ رشتہ ہمارے ملک میں بھی پروان چڑھ سکے تاکہ ہم حقیقی معنوں میں سلام ٹیچر ڈے منانے کے قابل ہوسکیں۔


شیئر کریں:
Posted in تازہ ترین, خواتین کا صفحہ, گلگت بلتستان, مضامینTagged
14253