Chitral Times

Apr 20, 2024

ﺗﻔﺼﻴﻼﺕ

فہم قُرآن کورس ………میرسیما آمان

Posted on
شیئر کریں:

چند سالوں سے چترال میں درس و تدریس کا سلسلہ بہت ذیادہ بڑھ گیا ہے۔مُختلف سکولوں ۔کالجوں اور مدرسوں میں آئے روز اس طرح کے پروگرام ہوتے رہتے ہیں۔اس حوالے سے اکثر پاکستان کے دوسرے علاقوں سے بھی مختلف علماء کرام چترال آتے رہتے ہیں۔پولو گراونڈ میں منعقد ہونے والا ’’ ۸ روذہ فہم و قُرآن کورس ‘‘ بھی اسی سلسلے کی ایک کڑی ہے جو مولانا اسماعیل کی سر براہی میں کئی سالوں سے ہورہی ہے۔یہ پروگرام ہر سال خیبر پختو نخوا کے کئی علاقوں میں منعقد ہو رہا ہے جس سے لوگ کا فی مُستفید ہو رہے ہیں۔چترالی عوام یقیناًمولانا اسماعیل کی مشکور ہیں جو ہر سال اپنی ذاتی مصروفیات کو تیاگ کر یہاں آتے ہیں۔اور لوگوں کو گمراہی سے بچانے کی اپنی کوشش کرتے ہیں۔انکو نہ چترال کی لمبی مسافت سے اُکتاہٹ ہے۔نہ یہاں کے ٹوٹی پھوٹی سڑکوں پر اُنہیں اعتراض ہے نہ اُنہیں اس بات کی پریشانی ہے کہ پتہ نہیں چترال کی عوام کو اردو سمجھ بھی آتی ہے یا نہیں۔بے شک وہ ایک مُلا ہیں تبلیغ اُنکا کام ہے مگر سچ تو یہ ہے کہ یہ اُنکی اﷲ سے محبت ہے اور یہ اُنکا پیغمبرانہ شوق ہے کہ اپنے قوم کو بچانا ہے۔یہ تمام ’’علما ء کرام ‘‘ ہم عوام کے لئے اﷲ کی طرف سے انعام ہیں،ہمیں انکی قدر کرنی چاہیے۔۔ ہم پاکستانی قوم کا المیہ یہ ہے کہ ہم مغربی اقدار کے اس قدر شیدائی ہو چکے ہیں کہ مذہب ہمارے لئے احساسِ کمتری کا نام بن چُکا ہے۔اِ س لئے ہم مذہبی امور کو اپنانے میں ہچکچاہٹ محسوس کرتے ہیں ۔ اپنی مذہبی سر گرمیاں ہمیں دقیا نوسیت لگتی ہیں۔پاکستانی قوم انگلش بولنے اور پڑھنے میں مغربی اقدار اور رہن سہن کو اپنانے میں جتنی فخر محسوس کرتی ہے۔اگر اتنی فخر اپنے مسلمان ہونے ،اپنی عبادات اور اپنے دینی علوم حاصل کرنے اور بانٹنے میں محسوس کریں تو مسلماں کامیابی کے اُس معراج پر پہنچے گی جسکا تصور کوئی اسلام دشمن عناصر کر ہی نہیں سکتا۔اسو قت چترال میں ۸۰ فیصد لوگ ایسے ہیں جو ایسی دینی محفلوں میں بغیر کسی ہچکچاہٹ کے شامل ہوتے ہیں۔ باقی تھوڑی تعداد میں ایسے لوگ بھی ہمارے درمیان موجود ہیں جنکو یا تو ماڈرنزم کی شدید بیماری لاحق ہے۔یا جن کو اپنے ’’علم ‘‘پر بہت ذعم ہے۔اور کچھ لوگ ایسے ہیں جن کے پاس ایسی محفلوں کے لئے ’وقت ‘ نہیں ہوتا۔جہاں تک بات ماڈرنزم کی ہے تو کیا ماڈرنزم محض لباس اور وضح قطع میں تبدیلی کا ہی نام ہے؟؟کیا ماڈرن ہونے کا مطلب صرف مذہب سے اذادی ہی ہے؟؟میں ایسے لوگوں کے لئے صرف اتنا ہی کہہ سکتی ہوں کہ جسطرح ہمیں مذہب کو دھاری ،لباس اور بُرقعے تک محدود کرنا بُرا لگتا ہے یقین کریں ماڈرنزم کو بھی مُحض لباس اور وضح قطع تک محدود کی جائے تو وہ قابل اعتراض بلکہ مضحکہ خیز بات ہی ہے۔اُس روشن خیالی کا کوئی فائدہ نہیں جسکے اندر زمانہ جاہلیت کی ’’ذہنیت ‘‘ چُھپی ہو۔اگر آپ اکیسویں صدی میں جی رہے ہیں۔تو اپکا دل و دماغ بھی اکیسو یں صدی کا ہی ہونا چاہیے۔جو ماڈرنزم یا روشن خیالی آپکو آپکے مذہبی جماعت میں شرکت سے روکے۔جو آپکو نماذی ہونے اور مذہب پر بات کرنے پر ’’شرم دِ لائے ‘‘ ایسی روشن خیالی سے آپکا دِ قیانوس ہونا بہت بہتر ہے۔پھر وہ لوگ جن کو اپنے علم پر بہت ذعم ہے۔انکے بارے میں خود احادیث سے یہ بات ثابت ہے کہ جو اپنے علم کو اپنے لئے کافی سمجھتے ہیں سمجھو وہ ہلاک ہوگئے۔ کیو نکہ علم تو آخری سانس تک حاصل کرنے والی چیز ہے۔ہم میں سے بہت سے لوگوں کا فلسفہ یہ ہوتا ہے کہ ہم لکھنا پڑھنا جانتے ہیں،ہم یا ہمارے بچے حافظ ِ قُرآن بھی اور ترجمان بھی۔ہمیں ایسی تمام باتوں کا علم ہے جنکا بیان ان تدریسی محفل میں ہوتا ہے۔لہذا ہمیں کسی مجلس میں جانے کی ضرورت نہیں۔وغیرہ وغیرہ۔تو میں ایسا فلسفہ رکھنے والوں کے لئے اتنا کہونگی کہ یہ سچ ہے کہ ہماری الماریاں ا حادیث سے بھری ہیں۔بے شک ہماری الماریوں میں قُرآن پاک تر جمعے اور تفاسیر کے ساتھ رکھی ہوئی ہیں۔ہمارے پاس سیرت نبویﷺ سے لیکر صحابہ کرام کی سوانح تک ،ہماری الماریاں اسلام کی پوری تاریخ سے بھری پڑی ہیں۔لیکن سوال یہ بنتا ہے کہ جب کبھی ہمارے علاقوں میں چترال سوات ۔دیر کہیں بھی جب کبھی کوئی سیاسی یا شوبز کی شخصیت کوئی فنکار یا کوئی گلوکار آتا ہے کیا تب بھی ہم سوچتے ہیں کہ ’’’ نیٹ ‘‘‘ ان تمام شخصیات کی تصاویر انکے وڈیوذ انکے گانوں سے بھری پڑی ہیں۔جو ہم کسی بھی وقت دیکھ سن اور پڑھ سکتے ہیں۔پھر کیا ضرورت ہوتی ہے جا کر خود ان لوگو ں سے ملنے کی ان کے ساتھ تصاویر بنانے کی۔ہم کیوں انکے لا یؤ پُرفارمنس دیکھنے کے لئے مر رہے ہوتے ہیں؟؟یہ ہمارا اپنے مذہب اسلام کے ساتھ سخت ترین ذیادتی ہے۔ہمیں خود کو ایسے لوگوں میں شمار ہونے سے بچانا ہے۔اور اﷲتعالیٰ کے ذکر کو مقبول کرنے میں کسی بھی تعصب سے پاک ہو کر اِ ن مجلسوں کو کامیاب بنانا ہے۔۔یہ بات خوش اَئند ہے کہ چترال میں اس درس میں شرکت کرنیوالوں کی تعداد گزشتہ سالوں سے زیادہ ہوتی جا رہی ہے۔شرکت کرنیوالوں میں بوڑھی خواتین سے لیکر نوجوان تک سب شامل ہیں۔لیکن نوجوانوں کو ذیادہ شرکت کی اور توجہ کی ضرورت ہے۔میں اپنے نوجوان نسل سے اتنا کہونگی کیا آپکو اس ماحول میں دم گُھٹتا ہوا محسوس نہیں ہوتا جہاں ۶۰ ۔۷۰ ۔۸۰ سالوں کے گناہ ’’’کعبے ‘‘‘میں جا کر دھونے کا رواج ہے؟؟؟؟کیا ہم نسل در نسل ایسے ہی جئیں گے؟؟ ہمیں اس فرسودہ نظام کو ختم کرنا ہوگا جس کے مُطابق ’’عبادات اور پر ہیز گاری ‘‘‘ بُر ھاپے کے لئے مخصوص کیا جاتا رہا ہے۔۔۔نوجوانوں کو فیصلہ کرنا ہوگا کہ وہ ’’کعبہ ‘‘ کیسے چہر وں کے ساتھ جانا چاہتے ہیں۔۔


شیئر کریں:
Posted in تازہ ترین, خواتین کا صفحہ, مضامینTagged
14024