Chitral Times

Apr 20, 2024

ﺗﻔﺼﻴﻼﺕ

کنُج قفس……….شاید خودکشی کی ایک وجہ…….. الطاف اعجاز اعجازؔ گرم چشمہ

Posted on
شیئر کریں:

اس دنیا میں سب سے عزیز شے انسان کی آپنی جان ہی ہوتی ہے کیونکہ یہی وہ اعلی تریں نعمت ہے جس کے چلنے سے زندگی کی رونقیں قائم ہیں اگر سانس ہی نہ رہیں تو کیا رونقیں ، کیا نظارے،انفرادی دنیا میں سب بے معنی وبیکار ہو کے رہ جاتی ہیں۔اس لئے یہ انسان کی نفسیات میں رکھی گئی ہے کہ وہ کسی بھی ناگہانی آفت میں مبتلا ہوتے ہی سب سے پہلے آپنے ہی جان کی حفاظت کے لئے دوڑ پڑے ، اس لئے جان ہے توجہاں ہے۔ یہ سکے کا پہلا رخ ہے مگرسکے کا ایک دوسرا رخ بھی ہے جو شاید بہت قبیح ہے اور جہاں جان کی حفاظت کجا آدمی آپنے ہی محفوظ جان کے پیچھے پڑجاتا ہے۔ ایک شخص آپنے ہی ہاتھوں سے اپنا گلا گھونٹ دیتا ہے،آپنا چراغ خود گل کرنے پہ تلا رہتا ہے۔اور ظلم یہ ہو کہ وہ شخص۔۔ بھائی، بہن، ابا، امی، چچا، دوست، پڑوس کوئی بھی ہو ۔ ۔ ۔ ابھی ابھی آپ کے ساتھ مل کے چائے پی رہا تھا، بلکل ٹھیک ٹھاک ، صحت مند اور تندرست ، ذہنی لحاظ سے بھی ٹھیک اورمختلف موضوع پر باتیں بھی کر رہا تھا کہ باہر جاتے چند لمحے بیت گئے تھے کہ خبر آتی ہے کہ اس نے خودکشی کر لی ہے۔اور آپ اس عجیب اور ناقابلِ یقیں خبر سن کرحواس باختہ ہوکے رہ جاتے ہیں کہ ایک تندرست آدمی کا جو ابھی ابھی پاس تھا اس طرح کا قدم اٹھانا ناممکن ہے ،مگر حقیقت سامنے آتی ہے کہ اس نے خودکشی ہی کر لی ہے۔مسلہ یہ نہیں کہ لوگ خودکشیاں کر رہے ہیں ، بلکہ مسلہ یہ ہے کہ وہ اصل وجوہات نہیں مل رہے ہیں جن کی وجہ سے یہ حرکتیں ہو رہے ہیں۔سوچنے والی بات ہے کہ آخر ایسا کیوں ہو رہا ہے کہ آدمی کاغذ کے ٹکڑے پر کچھ لکھ دیا اور پھر اس کی لاش ملتی ہے، ایک شخص سونے جاتے ہیں اور دوسرے دن لوگ اس کی لاش کو دریاء میں ڈھونڈنے نکلتے ہیں۔ یہ کیا ہے!۔ خودکشی، آپنے ہی ہاتھوں سے آپنی جان لینا!اگر ایسا ہی کچھ حادثہ ایک بار ہو تو بات سمجھ میں آجائے، مگر حالات برعکس ہیں ۔۔۔چترال میں خودکشیوں کے واقعات اتنے زیادہ ہو گئے ہیں کہ آٹے میں نمک والا معاملہ نمک میں آٹا ہوتا ہوا نظر آرہا ہے۔ایک آدمی چاہے جس عمر کا بھی ہو کہیں بھی کبھی بھی خودکشی کر بیٹھتا ہے ، ٹوئلٹ کے لئے آدمی باہر جاتا ہے اور پھنکے سے لٹکی اس کی لاش ملتی ہے،یہ کیا ہو رہا ہے، زمین کے باسیوں کو کیا ہوتا جا رہاہے، وقت کا سفر مکمل ہو رہا ہے یاانسانی دور ختم ہو رہی ہے ،زندگی کی قدر اتنے نیچے کیوں گر گئی ہے۔ممکن ہے کہ خودکشی کے وجوہات مالی، سماجی، معاشرتی،ذاتی ، جذباتی کچھ بھی ہو کہ ایک شخص مجبور ہوتا ہے اور قدم اٹھاتا ہے ۔۔۔مگریہ ناچیز گہرے باریک بینی اور ایک لمبے سر کھپائی کے بعد ایک چند نتائج پر آچکا ہوں، جن میں سے ایک پر آج کچھ کہنا چاہتا ہوں۔ ایک ذہنی بیماری ہے جس کے کئی مرحلے ہیں اور اس بیماری کے آخری مرحلے کو اسکٹزیفرینیا کے نام سے جانا جاتاہے ،ماہر نفسیات اور سائکاٹرسٹ اس جان لیوا بیماری سے خوب واقف ہیں ۔یوں سمجھو کہ یہ بیماری ایک آکاس بیل کی طرح ہوتی ہے اور اس کا مرکز ہمیشہ انسانی دماغ ہی ہوتا ہے جو کہ سوچوں اورخیالوں کا محور ہے ۔ وجہ کچھ بھی ہوتی ہے ۔۔۔کسی عزیز کی موت، خطرناک جذباتی حادثہ، کسی حساس دل کی کوئی ناجائز حرکت، مداومت پکڑی ہوئی احساس محرومی، دل کے کونے میں اٹکی ہوئی کوئی احساسِ ناکامی، محدود چیز لے کر غیر محدود کو سمجھنے کی نادانی میں مبتلا پریشان ذہنی ، لمبی مدت پر محیط منفی سوچ،مسدود کی ہوئی بے بس انا ، ایسی شخصیت جو حسد، نفرت، بغض، لالچ، حرص، انا، بیگانگی،تنہائی وغیرہ کی بنیادوں پر کھڑی ہوئی ہو ۔ وجہ کچھ بھی ہو۔۔۔کہ انسانی ذہن میں یہ بیماری اپنا اثر انتہائی دھیمی دھیمی انداز میں دیکھانا شروع کر دیتی ہے ۔ پہلے اسٹیج میں ہی اگر اس کو سمجھ کر اس کی علاج شروع کی جائے تو مبتلاشخص کو دوبارہ زندگی کی طرف لائی جاسکتی ہے، ورنہ یہ سارے درخت کو آپنے لپیٹ میں لے کر اسے سوکھ جانے پر مجبور کردیتی ہے، اور بیمار کئی مرحلے سے گزرکر آخرکار اس بیانک مرحلے پر پہنچ جاتا ہے جسے اسکٹزیفرینیا کہتے ہیں۔اسکٹزیفرنیا تخیلات کی ایک ایسی وسیع دنیا ہے جس کا حقیقت سے دور دور کا بھی تعلق نہیں اور اس میں مبتلا بیمار شخص زیادہ اسی دنیا میں رہتا ہے بلکہ اس دنیا کے ہاتھوں پھنس کر بے بس ہو کے رہ جاتا ہے، اسے پتہ ہی نہیں چلتا کہ باہر حقیقت کی دنیا میں کیا ہو رہا ہے اور زیادہ تر وقت اسے یہ بھی علم نہیں ہوتا کہ وہ خود کیا کر رہا ہے اور اس کی دنیا کی باتیں اور حرکتیں ہمیشہ باقائدہ اوربے قائدہ ملی ہوئی ہوتی ہیں یعنی ایک توڑ پھوڑ متلون مزاج ،پل میں تولہ پل میں ماشہ والی شخصیت ۔ مثلاّ اخلاقی باتیں ابھی ہو رہی تھی کہ غیر اخلاقی باتیں منہ سے شروع ہوجاتی ہیں،کبھی حیا کی انتہا اورکبھی بے حد بے حیائی، عقلی باتوں پر ابھی چل پڑا کہ پھر ایسی باتیں کہ بس عقل شرم سے جھک جائے،ابھی مطلق العنان بن کے آتا ہے تو تھوڑی دیر بعد جان کا نزرانہ پیش کر نے لگتا ہے، کبھی ساری دنیا کو مارنے کی تیاریاں کرے تو کبھی اپنے ہی سائے سے ڈرتے ہوئے کمرے کے کسی کونے میں سہم کر رہ جائے،کبھی ساری دنیا کاغم آپنے دل میں بسائے تو کبھی دل پتھر کا بن جائے ، اس کے سامنے پندونصیحتیں، اخلاقی باتیں ، اچھائی برائی کی تمیز، مستقبل کی منصوبہ بندیان سب بیکاراور بھینس کے آگے بین بجانے کے مترادف ہے، دراصل اسکٹزیفرینیا کے بیمار میں وہ طاقت ختم ہوچکی ہوتی ہے کہ وہ حقیقت سے اپنا رابطہ مستقل طور پر جڑسکے، مختصر یہ کہ ایسی بیمار پر اعتماد کبھی بھی نہ کی جائے، یہ کبھی بھی کہیں بھی کچھ بھی کر سکتا ہے کیونکہ یہ آپنی دنیا کی تخیلات کو حقیقت کی شکل دینے لگتا ہے، اور یہی وہ نازک مقام ہوتا ہے کہ وہ ایسی کچھ حرکت کر بیٹھتا ہے کہ شعور رکھنے والے لوگ دھنگ رہ جاتے ہے مگر اسے لگتا ہے جیسے کچھ ہوا ہی نہیں ۔ اسکٹزیفرنیا کے مریض کو اس مرحلے سے واپس لانا اگرچہ بہت مشکل ہے تاہم کوشش کرنی چاہئے ۔یہاں تک تو باتیں ہوئیں کہ خودکشی کی ایک وجہ اسکٹزیفرنیا کی بیماری ہے، اور تھوڑی بہت یہ باتیں بھی ہوئیں کہ اس مرحلے پر بیمار کی حالت کس طرح کی ہوتی ہے ۔مگر ایک بات ابھی بھی باقی ہے وہ یہ کہ وہ پہلا مرحلہ کس طرح کی کیفیت ہوتی ہے اور اس مرحلے کے نشانات کس طرح سمجھی جا سکتی ہیں جس سے گزر کر ایک بیمار اس خطرناک مرض کی طرف جاتا ہے۔ شروع شروع میں آدمی کسی بھی وجہ سے منفی سوچ کی طرف جاتا ہے اور مثبت سوچ کی ماہئیت کمزور پڑنا شروع کر دیتی ہے۔مثلا آپ سے تھوڑے ہی فاصلے پر دو آمی آپس میں باتیں کر رہے ہیں اور وہ دونوں آپنی دنیا اور اپنے مسائل میں مصروف ہیں اگر آپ کو لگنے لگے کہ وہ دونوں تمھارے بارے میں باتیں کر تے ہنس رہے ہیں تو یقین جانیںیہ مہلک مرض اسکٹزیفرنیا آپنی بیجوں میں سے ایک انتہائی معمولی بیج آپ کے ذہن میں بو رہا ہے۔


شیئر کریں:
Posted in تازہ ترین, مضامینTagged
13940