Chitral Times

Mar 28, 2024

ﺗﻔﺼﻴﻼﺕ

بجلی منافع کا لاینحل مسئلہ محمد شریف شکیب

Posted on
شیئر کریں:

مشترکہ مفادات کونسل نے خیبر پختونخوا کو اے جی این قاضی فارمولے کے تحت بجلی کا خالص منافع ادا کرنے پر اصولی اتفاق کیا ہے۔ وزیراعظم عمران خان کی زیر صدارت ہونے والے سی سی اے کے اجلاس میں چاروں صوبوں کے وزرائے اعلیٰ شریک تھے۔ماہرین کا کہنا ہے کہ اگر بجلی کے خالص منافع کی ادائیگی کے حوالے سے خیبر پختونخوا کا مطالبہ مان لیا جائے تو پانی سے پیدا ہونے والی بجلی کی قیمت میں تین سے چار روپے فی یونٹ اضافہ کرنا ہوگا۔ فی الوقت بجلی کے صارفین سے خالص منافع کی مد میں بلوں میں ایک روپے دس پیسے فی یونٹ کے حساب سے وصولی کی جارہی ہے۔ اے جی این قاضی فارمولے پر عمل درآمد کیا گیا تو بجلی کی قیمت چار روپے فی یونٹ بڑھانی ہوگی۔ اور اس کی فی یونٹ قیمت دس روپے تک پہنچ جائے گی جبکہ ملک میں تیل سے بجلی پیدا کرنے والی کمپنیاں بھی دس روپے فی یونٹ کے حساب سے بجلی پیدا کر رہی ہیں۔ واپڈا کے مطابق ایک روپے دس پیسے فی یونٹ کے حساب سے صارفین سے خالص منافع کی مد میں وصول ہونے والی 149ارب روپے کی رقم خیبر پختونخوا اور پنجاب کو ادا کردی گئی ہے۔ خیبر پختونخوا کو اس مد میں 94ارب اور پنجاب کو 55ارب روپے اداکئے گئے ہیں۔خالص منافع بجلی کی پیداواری لاگت میں شامل ہے۔ اس مد میں صارفین سے رواں مالی سال کے دوران 650ارب روپے وصول کئے جائیں گے۔ جن میں سے 200ارب روپے بجلی کے خالص منافع کی شکل میں خیبر پختونخوا اور پنجاب کو دیئے جائیں گے۔واپڈا اب کوئی منافع بخش ادارہ نہیں رہا۔ اسے جاری ترقیاتی منصوبوں اور روزمرہ اخراجات کے لئے بھی کمرشل بینکوں سے قرضے لینے پڑ رہے ہیں۔ ادارے کو دوبارہ منافع بخش بنانے کے لئے اس کی اوورہالنگ کی ضرورت ہے۔ مختلف سرکاری اور پرائیویٹ اداروں کے ذمے واپڈا کے 57ارب روپے سے زیادہ کے بقایاجات ہیں۔ نادہندہ اداروں کو اب تک درجنوں نوٹس دیئے گئے۔ مگر کوئی ٹس سے مس نہیں ہورہا۔ نادہندہ انفرادی صارفین کی تعداد بھی لاکھوں میں ہے۔ واپڈا کی مختلف تقسیم کار کمپنیوں کے صارفین کی تعداد دو کروڑ پندرہ لاکھ سے زیادہ ہے۔ جن میں سرکاری محکمے، نیم سرکاری اور پرائیویٹ ادارے بھی شامل ہیں۔ واپڈا کی لاچارگی کا یہ عالم ہے کہ چاروں صوبوں میں لاکھوں لوگ کنڈے ڈال کربجلی چوری کرتے ہیں۔ مگر بجلی چوروں کو پکڑ کر سزا دینے کے لئے ادارے کے پاس کوئی انتظامی ڈھانچہ موجود نہیں۔ چاروں صوبوں اور آزاد کشمیر میں بجلی کی تقسیم کار کمپنیوں کے ہزاروں ملازمین کو بجلی مفت فراہم کی جاتی ہے۔انہوں نے آگے اپنے رشتہ داروں میں مفت کا مال تقسیم کر رکھا ہے۔ جس کا بوجھ بل ادا کرنے والے صارفین پر ڈال دیا جاتا ہے۔ لائن لاسزکا رونا ہر حکومت کے دور میں رویا جاتا ہے مگر اس کے تدارک کا واپڈا کے پاس کوئی بندوبست نہیں ہے۔ واپڈا، بجلی کی تقسیم کار کمپنیوں کے ساتھ قیمتوں کا تعین کرنے والے ادارے کی بھی تنظیم نو ضروری ہے تاکہ صارفین پر بوجھ ڈالے بغیر ادارے کی تطہیر کی جاسکے اور نقصان کو منافع میں تبدیل کیا جاسکے۔یہ بات طے ہے کہ جہاں جہاں بجلی گئی ہے وہاں واپڈا اہلکاروں کا زور چلتا ہے۔جہاں جہاں بجلی چوری ہوتی ہے وہاں واپڈا اہلکار بھی ملوث ہیں جو بھیڑیئے کے ساتھ بکری کی ضیافت اڑاتے ہیں اور پھر مالک کے ساتھ بیٹھ کر بکری کی یاد میں ٹسوے بہاتے ہیں۔گذشتہ سال چیف ایگزیکٹو پیسکو نے اپنے تمام اہلکاروں سے قرآن پر حلف لیا تھا کہ وہ ادارے کے مفادات پر سودے بازی نہیں کریں گے۔ اور اپنے فرائض پوری دیانت داری، ایمانداری، خلوص نیت اور حب الوطنی کے جذبے کے ساتھ ادا کریں گے۔ مگر تقریب حلف برداری میں اہلکاروں کے رویئے سے ہی اندازہ ہورہا تھا کہ وہ اپنے حلف کو سنجیدہ نہیں لے رہے۔ اور نتیجہ بھی حسب توقع ہی نکلا۔موجودہ انتظامی ڈھانچے کے ساتھ اے جی این قاضی فارمولے پر عمل درآمد سے مہنگائی کی ایسی لہر آئے گی کہ اس پر قابو پانا حکومت کے لئے مشکل ہوجائے گا۔ ضرورت ہے کہ پہلے بجلی پیدا اور تقسیم کرنے والے اداروں میں اصلاحات کی جائیں۔


شیئر کریں: