Chitral Times

Apr 16, 2024

ﺗﻔﺼﻴﻼﺕ

جذبات، احساسات، مایوسی اور خودکشی………….آفتاب خان

Posted on
شیئر کریں:

چترال کی تاریخی پس منظر کا غور سے جا ئیزہ لیا جائے، تو اس بات کا تخمینہ لگانا مشکل نہیں ہوگا، کہ یہاں کے باشندے ایک مختصر وقت کے اندر کئی ادوار دیکھ چکے ہیں۔ مختلف ادوار میں یہاں کے باسیوں کی پس منظر مختلف رہی ہے۔ ۱۹۷۰ ء سے پہلے کے دور کو اس لحاظ سے سپردگی کا دور کہا جا سکتا ہے۔ لوگوں میں شناسائی نہیں تھیں، اور لوگ کچھ مخصوص لوگوں کے حکم پہ زندگی گزرتے تھے۔ اُن کے فیصلے، احساسات اور جذبات مجروح تھے۔ یعنی مکمل سپردگی کا دور کہا جائے تو بے جا نہیں ہوگا۔ لوگ اس سپردگی میں اُمید اور نا اُمید دونوں الفاظ سے نا اشناٗ تھے۔ اس دور میں ایک بچے کی خواہشات نہ ہونے کے برابر تھیں۔ معاشرے میں ایک جیسے رہن سہن اور رواج تھی۔

دوسرا دور ۱۹۷۰ ء سے ۲۰۰۰ء تک محیط ہے۔ یہ دور تاریخی اعتبار سے خود شناسی کا دور کہلایا جا سکتا ہے۔ لوگ اپنے حقوق ، اصول، جذبات اور احساسات کو سمجھنے لگے۔ لوگوں میں عقلی اور علمی شعور بیدار ہونے لگے۔ اس دور میں لوگوں میں خواہشیں بننا شروع ہوئی تھیں، لیکن خواہشوں کو پورے نہیں کیے جاتے تھے۔ اس کے بعد کا دور جو ابھی رواں ہیں، کو پیچیدہ دور کہا جا سکتا ہے۔ لوگوں کے مخصوص اُصول متعیں ہو چکے ہیں۔ اپنے جائز اور نا جائز حق کو سمجھ گئے ہیں۔ اپنے جذبات ، احساسات کو ظاہر کرنے لگے ہیں۔ آج اُمید کا پیمانہ جتنا بلند ہے، نا امیدی کی شدت بھی اُتنی ہی گہری ہے۔ آج ہم جتنی شعور اور دانائی کے دور میں داخل ہو چکے ہیں۔ اُتنے ہی ہم اپنے ثقافت ، سوچ، شرافت، سماج اور رسموں کے پابند بھی ہیں۔ اسی طرح اگے بڑھنے کا دباوٗ اور سماج کے کینچھاوٗ نے اس معاشرے کو ایک ایسے دور میں لاکھڑا کیا ہے۔ جس میں بے بسی، مجبوری او ر ذ ہنی تنگ دستی نے ایئے دن خودکشی جیسے ناسور کو جنم دیا ہے۔

موجودہ دور میں خواہشیں شرائط کے عوض پوری کی جا رہی ہیں۔ مثلہٰ ایک باپ اپنے بچے کے ہر خواہش پوری کرتا ہے، اور ساتھ مختلف اُمیدیں بھی باندھ لیتا ہے، مثلہ امتحان میں بہترین نمبر ، شادی میری مرضی سے، بہترین کمائی، کوئی غلطی نہ کرنا وغیرہ وغیرہ۔ آج کا نوجوان جس کو اُس کی خواہش کے مطابق سب کچھ مثلہ موٹرسائیکل، موبائل، اچھے معیاری ڈریس مہیا کی جاتی ہے۔ اور اگر اُن سے کوئی غلطی رونما ہو، تو بجائے علیحدگی میں سمجھانے کے ، سب کے سامنے اُس کے احساسات اور جذبات کو پاوٗں تلے روندھ کر ایسے کڑوے گھونٹ پلایا جاتا ہے، کہ یہ بچہ ندامت میں اپنا کوئی جذبات کسی کو بیان نہیں کر سکتا۔ ایسے مواقعوں پر پھر اُن کے سامنے امتحان میں اچھے کامیابی، یا کوئی اور چیلنج رکھ دیا جاتا ہے، جو اگے چل کر نقصاندہ ثابت ہوتا ہے۔

شرائط، اُمید، توقعات کی عدم تکمیل مختلف معاشرتی مسائل کو جنم دیتی ہیں، جیسے خاندانوں میں تناوٗ، ذہنی تناوٗ، جذباتی ذہانت کا فقداں،خاندانی سپورٹ میں کمی اور بھروسے کی کمی وغیرہ۔ خیبر میڈکل یونیورسٹی جارنل میں ۲۰۱۶ کے شایع کردہ ارٹیکل میں آغاخاں ہیلتھ سروس کے ظفر احمد اور ساتھیوں نے چترال میں خودکشی سے متاثرہ خاندانوں کے اندر اپنے تحقیق سے اوپر دیے گئے عوامل کو خودکشی کے بنیادی وجوہات قرار دیے ہیں۔
رہی بات چترال میں خودکشی کی شرح کیوں زیادہ ہے؟ اسکی بنیادی وجہ چترال کے معاشرے کا بہت جلدی بدلاو ہے۔ صرف ۴۰ سال کے مختصر عرصے میں تیں مختلف قسم کے ادوار دیکھنے کو ملتے ہیں۔ آج ایک ہی خاندان کے اندر تیں مختلف دور کے لوگ موجود ہیں۔ آج کے ایک اولاد کو ہر کوئی اپنے دور کے اچھائیاں اور رسومات بتا رہے ہوتے ہیں۔ اب سوال یہ پیدہ ہوتا ہے۔ کہ اج کے نوجوان اگے دیکھ کے جیئے یا پیچھے رسومات کو دیکھ کے۔ یہ اگے پیچھے سوچنے کا تناوُ آج کے نوجوانوں کو اپنے عبادات اور روحانی سکوں سے دور لاکھڑا کیا ہے۔ اور ائیے دن خودکشی جیسے حرام عمل دیکھنے اور سننے کو ملتے ہیں۔ پاکستان کے دوسرے علاقوں میں اس کی شرح اسلیئے کم ہے، کہ اُن معاشروں میں ترقی اور ادوار کی تبدیلی بہت اہستہ ہوئی ہے۔ ایک خانداں میں تقریباَ ایک ہی سوچ کے لوگ رہتے ہیں۔ اور ایک دوسرے کے جذبات، احساسات کو قریبی زاویے سے جانتے ہیں۔ ہمیںآج اپنے سوچ اور ادوار کو اپنے اولاد کے اوپر حاوی کرنے کے بجائے تحمل سے اُن کے مسائل، جذبات اور احساسات کا خیال رکھتے ہوئے اُن کے ساتھ ایسے تعلق قائم رکھنا چائیے ، کہ بجائے وہ خودکشی جیسے حرام عمل کی طرف جانے کے ، آپ سے دل کھول کے اپنے گلے شکوے کرے۔ آللؑ لہ تعالیٰ ہمیں اور ہماری اولادوں کو جلد اس ازمائش سے نکال لے۔ آمین……………

آفتاب خان ریسرچ آفیسر پاکستان ہیلتھ ریسرچ کونسل خیبر میڈیکل کالج پشاور


شیئر کریں:
Posted in تازہ ترین, مضامینTagged
13549