Chitral Times

Mar 28, 2024

ﺗﻔﺼﻴﻼﺕ

ماحولیاتی مستقبل کا تحفظ ……….محمد شریف شکیب

Posted on
شیئر کریں:

ماحولیاتی تغیرات پر تحقیق کرنے والے معروف محقق ڈاکٹر محمود حسن کا ایک مضمون نظر سے گذرا اور دل کو بھاگیا۔ کہتے ہیں کہ پانی کا ضیاع روکنے اور صاف پانی کو آلودہ کرنے سے متعلق سخت قانون سازی کی فوری ضرورت ہے۔ پانی ضائع کرنے والوں پر بھاری ٹیکس لگائے جائیں ۔ فیکٹریوں اور فارم ہاوسز کا کیمیکل ملاپانی نہروں اور دریاوں میں بہانے والوں کو پابند بنایا جائے کہ وہ خود ری سائیکلنگ کے ذریعے اس پانی کو دوبارہ قابل استعمال بنائیں۔آبی ذخائر میں خودکفیل ہونے کے باوجود ہم تیزی سے آبی بحران کی طرف بڑھ رہے ہیں۔ ہمارے دریاوں کا نصف سے زیادہ پانی سمندر میں جاگرتا ہے۔ اسے استعمال کرنے کا کوئی مکینزم ہمارے پاس موجود نہیں۔ بارشوں کا سارا پانی ضائع ہوتا ہے۔ گذشتہ چار عشروں میں پانی کو ذخیرہ کرنے کے لئے کوئی ڈیم نہیں بنایا جاسکا۔ ماحولیاتی تغیرات کی وجہ سے گرمی کی شدت بڑھ رہی ہے جس سے ملک کے پہاڑی علاقوں میں موجود گلیشئرز تیزی سے پگھل رہے ہیں۔ چترال، سوات، دیر، گلگت بلتستان اور ہزارہ کے پہاڑی علاقوں میں گلیشئرز ٹوٹنے سے گذشتہ چند سالوں کے دوران سیلابوں نے بڑے پیمانے پر تباہی مچائی ہے۔ گرمی اور خشک سالی کی وجہ سے فصلیں تباہ ہورہی ہیں۔ سبزہ اور جنگل سوکھ رہے ہیں۔ جنگلی حیات کی زندگی بھی خطرے سے دوچار ہے۔اورپہاڑی علاقوں میں ماحولیاتی تغیرات کی وجہ سے مہلک بیماریاں پھیل رہی ہیں۔ صدر ایوب خان نے تربیلا ڈیم تعمیر کروایا تھا۔ اس کے بعد کسی حکومت کو آبی ذخائر تعمیر کرنے کی توفیق نہیں ہوئی۔ جبکہ دوسری جانب بھارت سندھ طاس معاہدے کی خلاف ورزی کرتے ہوئے پاکستان میں داخل ہونے والے دریاوں میں کئی ڈیم بنا چکا ہے۔سیاسی حکومت کی خاموشی دیکھ کر چیف جسٹس آف پاکستان نے ملک میں دو آبی ذخائر تعمیر کرنے کی مہم شروع کردی۔دیامر بھاشا اور مہمند ڈیم کی تعمیر کے لئے فنڈ قائم کیا گیا۔چیف جسٹس کا کہنا ہے کہ ریٹائرمنٹ کے بعد وہ ایک جھونپڑی بناکر آبی ذخائر کی چوکیداری کریں گے۔ وزیراعظم عمران خان نے بھی آبی ذخائر کی اہمیت کا ادراک کرتے ہوئے بیرون ملک مقیم پاکستانیوں سے ڈیم کی تعمیر کے لئے ایک ہزار ڈالر فی کس چندہ دینے کی اپیل کی ہے جس پر سمندر پار پاکستانیوں نے فوری اور مثبت ردعمل کا اظہار کیا ہے اور نہایت فیاضی سے ڈیم فنڈ میں عطیات جمع کر رہے ہیں۔بیرون ملک مقیم پاکستانیوں کو اپنے وطن والہانہ محبت ہے۔ انہوں نے ہر آڑے وقت میں ملکی معیشت کو سہارا دیا ہے۔ توقع ہے کہ سمندر پار مقیم محب وطن پاکستانی ایک سال کے اندر ہی ڈیم کی تعمیر کے لئے درکار رقم فنڈ میں جمع کرائیں گے۔ بین الاقوامی مالیاتی اداروں سے بھاری سود پر قرض کی بھیک مانگنے سے لاکھ بہتر ہے کہ حب الوطنی کے جذبے سے سرشار پاکستانیوں سے ہی مدد لی جائے۔ اس قوم میں بے پناہ خداداد صلاحیت ہے۔ اور انہوں نے اپنی ان صلاحیتوں سے پوری دنیا کوبارہا ورطہ حیرت میں ڈال دیا ہے۔ انہیں صرف یہ اعتماد دلانے کی ضرورت ہے کہ ان کی عطیہ کی گئی رقم پاکستان کی تعمیر و ترقی پر خرچ کی جائیں گی۔تو وہ اپنا سب کچھ ملک پر لٹانے سے دریغ نہیں کرتے۔ ڈیموں کی تعمیر کے ساتھ حکومت نے درخت لگانے کی بڑی مہم بھی شروع کردی ہے۔ خیبر پختونخوا میں ایک ارب درخت لگانے کی مہم کے بعد تحریک انصاف کی حکومت نے آئندہ پانچ سالوں کے دوران ملک بھر میں دس ارب درخت لگانے کی منصوبہ بندی کرلی ہے۔ جو موسمی تغیرات کے نقصانات سے بچنے کی اچھی منصوبہ
بندی ہے۔ پوری قوم اپنی بقاء کی اس جدوجہد میں حکومت کے ساتھ کھڑی ہے۔ سارا بوجھ بیرون ملک مقیم پاکستانیوں پر ڈالنے کے بجائے پاکستان کے ہر شہری کو اس کار خیر میں اپنا حصہ ڈالنا چاہئے تاکہ ہم اپنی آئندہ نسل کوایک صحت افزاء ماحول فراہم کرسکیں۔ دوسروں پر انحصار کرکے اپنے اداروں کو گروی رکھنے کے بجائے خود کفالت کی منزل کاتعین کرکے اس کے حصول کی جدوجہد کرنا زندہ قوم کی نشانی ہے۔ یہ قوم اسلامی نظریئے کی بنیاد پر ایک آزاد اور خود مختار ملک حاصل کرسکتی ہے۔ اپنے دفاع کو ناقابل تسخیر بناسکتی ہے۔کھیل سمیت مختلف میدانوں میں بڑے بڑے سورماوں کو سرنگوں کر سکتی ہے ۔ تو کسی بھی ناممکن نظر آنے والے ٹاسک کو ممکن بنانے کی بھی بھرپور صلاحیت رکھتی ہے۔ اگر ضرورت ہے تو صرف مخلص، نڈر اور وژن رکھنے والی قیادت کی ہے۔ جو عمران خان کی صورت میں انہیں نظر آنے لگی ہے۔


شیئر کریں: