Chitral Times

Apr 24, 2024

ﺗﻔﺼﻴﻼﺕ

انقلابیوں سے انقلابیوں تک…………..ظفر احمد

Posted on
شیئر کریں:

دنیا میں اصلاحات لانے یا پھردنیا کے نظام کو یکسر تبدیل کرکے انقلاب برپا کرنے کے دعوے اور تحریکیں کافی پرانی ہیں۔ ہر دور میں ایسی طلسماتی شخصیت کے لوگ پائے گئے ہیں جنہوں نے استحصالی اور کرپٹ نظام کو للکارا اور لوگوں بالخصوص نوجوانوں کی بھرپور حمایت سے شاہانِ وقت کو جھنجھوڑ کر رکھ دئے۔ اپنے مقصد میں کامیابی و ناکامی سے قطع نظر ان تحریکوں نے دنیا بالخصوص ان معاشروں میں خاطرخواہ تبدیلی کے باعث بنے جہان سے ان تحریکوں نے جنم لی۔
ان تحریکوں میں خاص کر وہ تحریکیں قابل ذکر ہیں جو یورپ سےشروع ہو کر دنیا کے دوسرے حصوں تک پھیل گئیں۔ یہی تحریکیں اہل یورپ کو “دورِتاریکی” سے نکال لائیں۔ داناؤں کے نظریات، سیاسی مدبروں کی بصیرت اور نوجوانوں کے جذبات سے لبریز تبدیلی کے ان تحریکوں نے روشن خیالی کا پرچار کئے اور حاکمِ وقت سے بنیادی انسانی حقوق اور انسانی اقدار کے مطالبے کئیں۔ علم و دلیل کی طاقت سے مذہبی انتہاپسندی، توہم پرستی اور روایات پسندی کو شکست دیکر انسانی ذہن کو انسانی بقا کے لئے مامور کر دئے۔commitment ایسی تھی کہ کچھ ہی وقت میں اندھیروں کے پجاریوں کو گھٹنے ٹیکنے پر مجبور کر دئے۔ اندھیروں کے بادل چھٹتے ہی یورپی معاشرہ معاشی، سماجی ، اخلاقی ، علمی اور صنعتی سمیت زندگی کی ہر میدان میں ترقی کی نئی نئ منازل طے کرتے گئے۔

صنعتی انقلاب کے کوکھ سے جنم لینے والا سرمایہ دارانہ نظام میں معاشرے کے پسے ہوئے طبقات کا استحصال جب حد سے تجاوز کر گیا اور معاشی ناہمواریاں حدوں کو چھونے لگے، تو یورپ میں ترقی پسند بائیں بازو کی تحریک نے جنم لی۔ سرمایہ دارانہ نظام کواشتراکیت میں تبدیل کرنے کے لئے کوشاں اس تحریک نے دلیل کےساتھ ساتھ گوریلا مزاحمت کو بھی اپنے مقاصد کے حصول کے لئے ضروری سمجھی۔ انقلاب روس کے ساتھ انقلابیوں کی یہ تحریک دنیا کے کونےکونے تک پھیل گئی۔ حتیٰ کہ برصغیر بھی اس انقلابی تحریک کے نظریات سے متاثر ہوۓ بغیر نہ رہ سکا۔ آزادی ہند کے مشہور ہیرو بھگت سنگھ بھی انہی انقلابی نظریات کے حامل تھے۔

آزادی اور تقسیم ہند کے بعد بھی انقلابی نظریات کے حامل لوگ دونوں دیشوں میں کافی مقبول رہے۔ ہندوستان میں تو کئی ریاستوں میں حکومتیں بھی قائم کیں۔ البتہ پاکستان میں ترقی پسندوں کے لئے شروع ہی سے زمین تنگ رہی۔ مرد مومن ضیاالحق کے دور میں زمین وآسمان کی صعوبتیں تک برداشت کرنی پڑیں۔ان سب کے باوجود اس سر زمین کو فیض احمد فیض اور جام ساقی جیسے ترقی پسند نظریات والے سپوت پیدا کرنے کا شرف حاصل ہوا۔ ترقی پسند نظریات کی جانب رجحان ہی پاکستان پیپلز پارٹی کی مقبولیت کا سبب بنی اور آج بھی نظریہ ہی اس پارٹی کی اصلی میراث ہے۔

سویت یونیین کے انہدام کے بعد ترقی پسندوں کی عالمی سطح پر سیاسی سرپرستی ختم ہونے سے بڑی حد تک ان کی حوصلہ شکنی ہوئی۔ ساتھ ہی عالمگریت، انفامیشن ٹیکنالوجی اور نئو لبرل ازم کی فروغ نے دنیا کو نئے چیلجز سے دوچار کر دئے۔ دوسری جانب بائیں بازو کی منظم تحریکوں کے فقدان کے باعث دائیں بازو کی جماتیں اپنی انتہا پسندانہ نظریات کا کامیابی سے پرچار کر رہی ہیں۔ امریکہ میں تبدیلی کے نام پر ٹرمپ اورانڈیا میں نریندر مودی کی کامیابی اسکی عملی مثالیں ہیں۔

کچھ ایسا ہی صرتحال پاکستان میں بھی ہے جہان انٹرنیٹ اور سمارٹ فونز کے دور میں ایک ایسی نسل تیار ہو چکی ہے جو تبدیلی لانا چاہتی ہے۔ ماں باپ کے پیسوں پر عیش کرنے والے عملی زندگی کی باریکیوں سے کوسوں دور یہ نوجواناں ٹوئٹر اور فیسبک کی دنیا میں انقلاب کے لئے کوشان ہیں۔ سنجیدہ کتاب پڑھنا دور کی بات سنجیدہ مضمون تک نہیں پڑھ سکتے البتہ فوٹو شاب میں خوب مہارت رکھتے ہیں۔ پہلے زمانے کے انقلابیوں جیسا دلیل تو پیش نہیں کر سکتے تاہم گالیوں سے مخالفیں کو حواص باختہ کرنے کے ہنر میں خوب مہارت حاصل ہے۔ یہ چیزوں کو سطحی طور پر دیکھتے ہیں، ان کی نظر میں کرپشن جو کے روایتی سیاستدانوں کی پیداوار ہے ہی اس ملک کا سب سے بڑا مسئلہ ہے۔ باقی چیزیں بشمول دہشدگردی اس ملک کا مسئلہ ہے ہی نہیں کیونکہ یہ ہمارے خلاف عالمی سازش ہیں۔ ان کے مطابق ہر وہ انسان بکا ہوا پٹواری ہے جو ان سے اختلاف رکھے اور ایسے تمام صحافی “لفافہ صحافی” ہیں۔ حاصدیں ان کو “برگر بچے” کہ کر اپنی پٹواری پن کا مظاہرہ کرتے ہیں۔ مگر فی الحال یہ نیا ملک بنا چکے ہیں مگر صرف فوٹو شاپ سے اور وہ بھی ٹوئٹر پر۔ یہ انقلابی ہمارے “سبز سلام ” کے مستحق ہیں۔


شیئر کریں:
Posted in تازہ ترین, مضامینTagged
13205