Chitral Times

Mar 29, 2024

ﺗﻔﺼﻴﻼﺕ

قومی وسائل کی لوٹ مار ……… محمد شریف شکیب

Posted on
شیئر کریں:

قومی وسائل کو مفت کا مال سمجھ کر ہڑپ کرنا ہماری عادت بن گئی ہے۔ اسے کوئی بڑا گناہ تصور نہیں کیا جاتا۔ اس کی ایک چھوٹی سی مثال پشاور بس ریپڈ ٹرانزٹ منصوبے کے سامان کی چوری ہے۔ پشاور پولیس کے سربراہ نے انکشاف کیا ہے کہ گذشتہ دس مہینوں میں 45کروڑ روپے مالیت کے سریے ا، جائنٹ فولڈنگ پائپ، پی سی وائر کیبل، جنگلے اور ٹاور لائٹس چوری ہوچکے ہیں۔ چمکنی سے حاجی کیمپ تک کے علاقے میں ساڑھے نو کروڑ، حاجی کیمپ سے امن چوک تک کے علاقے میں بائیس کروڑ اور امن چوک سے حیات آباد تک ساڑھے تیرہ کروڑ روپے کا سامان چرایا گیا ہے۔ تعمیراتی کمپنی کی رپورٹ پر پولیس نے بی آر ٹی کا سامان چوری کرنے والے تین گروہوں کا سراغ لگالیا اور مختلف گوداموں پر چھاپہ مار کر تین کروڑ روپے سے زائد مالیت کا سریا اور دیگر سامان برآمد کرلیا ہے۔بی آر ٹی پشاور کی ترقی کا ایک بڑا منصوبہ ہے۔ توقع ہے کہ اس منصوبے کی تکمیل سے شہر خوبصورت لگے گا۔ ٹریفک کے مسائل حل ہوں گے شہریوں کو جدید سفری سہولیات میسر آئیں گی۔ جو لوگ اس اہم قومی منصوبے کا سامان چرا کر اپنے گوداموں میں بھرتے ہیں وہ قومی مجرم ہیں۔ان کو نشان عبرت بنانے کی ضرورت ہے تاکہ آئندہ کسی کو قومی وسائل لوٹنے کی جرات نہ ہو۔ تقریبا ساٹھ ارب روپے کی لاگت سے بی آر ٹی کا جو منصوبہ شروع کیا گیا ہے۔ اس کا بیشتر حصہ قرضے کی صورت میں لیا گیا ہے۔ جسے سود سمیت واپس کرنا ہے۔ یہ رقم ٹیکسوں کی صورت میں عوام سے ہی وصول کی جائے گی۔ اور مسروقہ سامان بھی اس قرضے میں شامل ہے۔ اگر عوام کو اتنی سی بات سمجھ میں آجائے کہ ان کی آنکھوں کے سامنے جو لوگ سرکاری وسائل چوری کررہے ہیں یا ان کا ناجائز استعمال کررہے ہیں وہ ہمارے بچوں کے رزق پر ڈاکہ ڈال رہے ہیں اور ان کی نشاندہی عوام کا اخلاقی، دینی اور قومی فریضہ ہے۔ تو قومی وسائل کی بندربانٹ کو روکا جاسکتا ہے۔ستم ظریفی یہ ہے کہ ہم قومی وسائل کو اپنا نہیں سمجھتے۔ حلال اور حرام کی تمیز ختم ہوتی جارہی ہے۔ ہم کھانے کی چیزیں خریدتے وقت تو حرام اور حلال کے حوالے سے بڑے حساس ہوتے ہیں لیکن یہ نہیں سوچتے کہ جو حلال چیزاپنے بچوں کو کھلانے کے لئے ہم خرید رہے ہیں۔وہ زرخرید بھی حلال کی کمائی کا ہے یا نہیں۔اگر ہم سرکاری ادارے کے ملازم ہیں تو سونے سے پہلے چند منٹ کے لئے یہ سوچ لیں کہ آج جو کمایا ہے اس کے بدلے میں ہم نے اپنے ادارے اور قوم کو کیا دیا ہے۔کیا ہم نے اپنے فرائض منصبی پوری دیانت داری، ایمانداری اور فرض شناسی سے ادا کئے ہیں۔ جو تنخواہ، مراعات اور ملازمت کے اختتام پر پنشن، گریجوٹی ، بچوں کی ملازمت ، رہائش وغیرہ کی صورت میں جو وسائل قومی خزانے سے پائیں گے ۔ان کے بدلے قوم کو کیا دیا ہے۔ اکثر دیکھنے میں آتا ہے کہ سرکاری دفاتر کے اوقات صبح آٹھ بجے سے شام چار بجے تک مقررہیں۔ مگر افسر اور ماتحت عملہ نو دس بجے آتا ہے اور بارہ ایک بجے نماز اور دوپہر کے کھانے کے لئے جاتا ہے اور واپس آتے ہی گھر کی راہ لیتا ہے۔ بعض ملازمین صرف تنخواہ لینے مہینے میں ایک بار دفتر جاتے ہیں۔حکومت بزور شمشیر کسی کو ایماندار اور دیانت دار نہیں بناسکتی۔حکومت چاہئے عمران خان کی ہو۔ نواز شریف، فضل الرحمان، سراج الحق یا آصف زرداری کی ہو۔ کام چور اور مفت خور ہر دور میں اپنا کام نکال لیتا ہے اوراس بددیانتی کو نہایت ڈھٹائی کے ساتھ ہوشیاری بھی گردانتا ہے۔ صرف نچلی سطح کے ملازمین نہیں۔ وزیراعظم ، وزراء ، اراکین اسمبلی ، چھوٹے بڑے افسران بھی کرپشن کے اس دلدل میں پھنسے ہوئے ہیں۔اور ستم بالائے ستم یہ ہے کہ اس دلدل سے نکلنے کی ان میں کوئی خواہش بھی نہیں پائی جاتی۔ آوے کا آوا ہی بگڑا ہوا ہے۔ کسی کو خوف خدا ہے نہ قیامت اور قبر کی فکر ہے۔ جائز اور ناجائز طریقے سے دولت کے انبار لگانے کو معاشرے میں باعزت کہلانے کا ذریعہ سمجھا جاتا ہے۔کرپشن کی یہ عادت مولوی، مفتی، ذاکر اور واعظ کے پند و نصائح سے ختم ہونے والی نہیں۔قومی وسائل لوٹنے والوں کے لئے سخت قوانین بنانے اور نافذ کرنے کی ضرورت ہے۔ دو چار ہزار بڑے چوروں کو سرعام لٹکادیا جائے تو کرپشن پر قابو پایا جاسکتا ہے۔ اسلام نے چور کے ہاتھ کاٹنے کی سزا اسی لئے مقرر کی ہے کہ ہاتھ کٹنے اور مفلوج زندگی گذارنے کے خوف سے لوگ چوری کرنا چھوڑ دیں۔کیا عجب کہ پاکستان میں بھی قومی وسائل کی لوٹ ماراور امانت میں خیانت کرنے والوں کے لئے ہاتھ کاٹنے کی سزا مقرر کی جائے۔


شیئر کریں: