Chitral Times

Apr 19, 2024

ﺗﻔﺼﻴﻼﺕ

آلو ، ٹیکس اور سیاست………… شمس الرحمن تاجک

Posted on
شیئر کریں:

کسی ملک کے نظام کو چلانے کے لئے انتظامیہ ووٹوں سے منتخب ہو کر آئے یا پھر امتحان پاس کرکے، دونوں کو پیسہ چاہئے۔ اور پیسہ حکومتیں مختلف مد میں ٹیکس لگا کر جمع کرتی ہیں۔ ٹیکس کا نظام کوئی نیا نہیں ہے جب سے دنیا بنی ہے حکومتوں کا تصور موجود ہے ،ٹیکس کا نظام کسی نہ کسی صورت چلا آرہا ہے۔ چاہے بادشاہت ہو، آمریت ہو یا جمہوریت۔ ٹیکس کا نظام ہر نظام حکومت کے لئے ریڑ کی ہڈی کی حیثیت رکھتی ہے۔نظام حکومت کو مفلوج ہونے سے بچانے کے لئے بطور شہری سب کی انفرادی ذمہ داری ہوتی ہے کہ ٹیکس کے نظام کو سپورٹ کریں تاکہ ملک ترقی کی راہ پر گامزن ہوسکے۔
جہاں ٹیکس کا نظام ہوتا ہے وہیں پر ٹیکس کے پیسے سے عوام کے فلاح و بہبود کے لئے کام بھی کئے جاتے ہیں ایسے منصوبوں پر زیادہ زور دیا جاتا ہے جس سے عام آدمی کو سہولت ملنے کے ساتھ ریونیو بھی پیدا ہوسکے۔ حکومتیں ایسی اشیاء یا مقامات یا سہولیات پر ٹیکس لگانے سے گریز کو ہی اہمیت دیتی ہیں جس میں ان کا کوئی کردار شامل نہ ہو۔مگر ہمارے ملک میں ہر چیز انسانی روایات اور اخلاقیات سے ہٹ کرانجام دینے کو فوقیت دی جاتی ہے۔ اس کی تازہ مثال ضلعی حکومت کا آلو کی پیداوار پر ٹیکس لگانا ہے۔ آلو چترال میں صرف گرم چشمہ کے علاقے کی پیدوار ہے۔ باقی چترال والے اس پیداوار کے لئے یا تو اپنی زمین کو برباد کرنا نہیں چاہتے یا پھر اپر چترال کے دور افتادہ علاقوں میں سڑکوں کی عدم موجودگی اس پیدوار کی راہ میں رکاوٹ کا سبب ہے۔ گرم چشمہ میں جو آلو اگائی جاتی ہے اس میں ضلعی حکومت سمیت کسی بھی حکومت کا کوئی کردار کبھی نہیں رہا۔ ضلعی حکومت میں موجود اس ٹیکس کے حامی ٹاؤن چترال کے باسی نمائندوں کو شاید یہ بھی پتہ نہیں کہ آلو اگائی کس طرح جاتی ہے۔ ان کو شاید یہ تک نہیں معلوم کہ گرم چشمہ میں قابل کاشت زمین کتنی ہے اور وہاں کے غریب لوگ اس آلو کے سہارے کیا کیا معاہدے کرچکے ہوتے ہیں۔ ان غریب لوگوں کے کتنے بچے اس ایک آلو کے سہارے تعلیم حاصل کررہے ہوتے ہیں۔ کتنے لوگوں کے پیٹ کا جہنم اسی آلو کی پیدوار سے ہونے والی آمدنی سے بھرتا ہے۔ کتنے گھروں کے چولہے اس آلو کے سہارے جل رہے ہوتے ہیں۔ آپ ان سب لوگوں کے منہ کا نوالہ کیوں چھین رہے ہیں یہ سوال کرنے کا حق گرم چشمہ والوں کو نہیں ہے؟۔
آپ نے کبھی پنجاب سے درآمد کی جانے والی آلو کے بوری کا وزن کیا ہے نہیں کیا نا۔ یا چترال سے پنجاب برآمد کئے جانے والے آلوکے بوری کا وزن کیا ہے۔ یہ سب آپ کے کرنے کا کام نہیں ہے؟ چلو ہم آپ کو بتاتے ہیں۔ پنجاب سے درآمد کی جانے والی بوری 65 سے 70 کلو کی ہوتی ہے اور قیمت 3200 روپے۔ گرم چشمہ سے برآمد کی جانے والی بوری 130 سے 135 کلو کی ہوتی ہے اور قیمت 1600 سے 1900 روپے۔ آپ کا ٹیکس اگر اس میں سے کاٹ دیا جائے تو 1400 کی بوری ۔ آپ گرم چشمہ والوں سے بھلے ٹیکس لے لیں مگر پنجاب سے آنے والی بیچ کی بوری 130 کی نہیں صرف100 کلو کی کروا دیں۔ گرم چشمہ والے آپ کو 160 کے بجائے فی بوری 300 ٹیکس دینے کو تیار ہیں۔ آپ یہاں سے برآمد کی جانے والی آلو کی بوری بھی 100 کلو تک محدود کروائیں اور اس بات کو یقینی بنائیں کہ نہ تو 100 کلو سے کم کی بوری درآمد ہو اور نہ ہی 100 کلو سے زیادہ کی بوری چترال سے برآمد کی جاسکے۔ گرم چشمہ والے تب بھی آپ کو 300 روپے فی بوری ٹیکس دینے کو تیار ہیں۔ مرغی فروشوں کے لئے ایک ہفتے تک آپ کے ماتحت کام کرنے والے انتظامی لوگوں نے جو ریٹ مقرر کرکے تماشا بنایا تھا ایسا تماشا آلو کے ساتھ نہ کریں۔ بلکہ قانون پر عمل درآمد کو ہمیشہ کے لئے یقینی بنائیں۔ آپ جو ٹیکس بولیں گے گرم چشمہ والے ادا کریں گے۔
ایک بات اور گرم چشمہ روڈ خدا کے بعد وہاں کے عوام کی مرہون منت قابل استعمال ہے ورنہ ضلعی حکومت نے تین سال پہلے تین کروڑ روپے کی لاگت سے شاشا کے مقام پر متبادل روڈ بنایا ہے اس پر تین سال گزرنے کے باوجود آج تک کوئی گاڑی چل نہیں سکی۔ وہ قابل استعمال ہی نہیں ہے اور نہ ہی ضلعی حکومت اس کو قابل استعمال بنانے کا ارادہ رکھتی ہے۔ سالانہ کی بنیاد پر گرم چشمہ روڈ پر دروشپ کے مقام پر ایک پل کی مرمت ہوتی رہی ہے کروڑوں روپے اس ایک پل نے آج تک ہضم کئے ہیں مگر جب بھی وہ بنا ایک ہفتے سے زیادہ قابل استعمال نہیں رہا۔ آج کل اسی پل پر پھر سے سی اینڈ ڈبلیو ناقابل استعمال کی تختی آویزاں کرچکی ہے اور ضلعی حکومت کے نمائندے اپنے ڈرائنگ روم میں بیٹھ کر گرم چشمہ والوں پر ٹیکس لگانے میں مصروف ہیں۔ کبھی اپنی مدد آپ کے تحت بنائے گئے ان سڑکوں کا معائنہ بھی کیا کریں۔ اپنی کارکردگی کا تماشا بھی دیکھا کریں وہاں کے لوگوں کے سوالوں کا جواب بھی دیا کریں جن پر آپ ٹیکس لگا کر اپنے لئے تنخواہ کا بندوبست کررہے ہیں۔اس الزام کی تحقیقات کا بھی حکم دیں جس کے مطابق 2015 کے سیلاب کے بعد اب تک گرم چشمہ روڈ پر 12 کروڑ روپے خرچ ہوئے ہیں۔ یہ سرمایہ کہاں خرچ ہوا جناب۔ آٖپ بارہ کروڑ روپے گرم چشمہ کے عوام تک پہنچائیں وہ چترال سے گرم چشمہ تک ایک باقاعدہ نیا متبادل روڈ بنا کر آپ کو دکھائیں گے۔ آپ گرم چشمہ روڈ قابل استعمال تو بنائیں پھر اس روڈ پر سفر کرکے گرم چشمہ والوں پر ٹیکس لگانے کے لئے بھی آئیں۔وہ خوشی سے آپ کو ٹیکس دیں گے۔
فی بوری 160 روپے ٹیکس لگانے کے بعد آپ کتنا ٹیکس جمع کرسکیں گے۔ چند لاکھ روپے۔ یہ ٹیکس لگا کر گرم چشمہ کے غریب عوام کا جینا حرام کرنے کے بجائے آپ ہر سال گرم چشمہ روڈ پر مرمت کے نام استعمال ہونے والے فنڈز کے استعمال کی شفافیت کو یقینی بنائیں۔ تو آپ کے پاس کروڑوں کا سرمایہ بچ جائے گا۔ آپ کی حکومت کے دوران ائیرپورٹ روڈ کی کتنی دفعہ پیوند کاری کی گئی اور کاغذوں میں اس کو مکمل کارپٹ دیکھا کرپیسے بٹورے گئے وہی بچالیتے جناب۔ آپ کے تین سال کے آلو پر لیے جانے والے ٹیکس سے کئی گنازیادہ سرمایہ تھا۔ اس بڑے پیمانے کے کرپشن میں کس کس کا حصہ ہے اس کی تحقیقات آپ کیوں نہیں کررہے ہیں۔آپ تو گرم چشمہ والوں کے نمائندے ہیں کیوں ان کا خون چوس کر مافیاز کو پروموٹ کررہے ہیں۔


شیئر کریں:
Posted in تازہ ترین, مضامینTagged
13154