Chitral Times

Apr 18, 2024

ﺗﻔﺼﻴﻼﺕ

ملک کا 13واں سربراہ مملکت……….. محمد شریف شکیب

Posted on
شیئر کریں:

اسلامی جمہوریہ پاکستان کے تیرھویں سربراہ مملکت یعنی صدر پاکستان کا انتخاب 4ستمبر کو ہورہا ہے۔ پاکستان تحریک انصاف اور اتحادی جماعتوں کی طرف سے عارف علوی ، پیپلز پارٹی کے بیرسٹر اعتزاز احسن اور مسلم لیگ ن، جے یو آئی، جماعت اسلامی، اے این پی اور دیگر اتحادی جماعتوں کے مشترکہ امیدوار مولانا فضل الرحمان صدارت کے امیدوار ہیں۔ آئین پاکستان کے تحت سینٹ، قومی اسمبلی اور چاروں صوبائی اسمبلیاں صدارتی انتخاب کے لئے الیکٹوریل کالج ہوں گی۔ چھ ایوانوں کے مجموعی ارکان کی تعداد 1174بنتی ہے جن میں سینٹ کے 104قومی اسمبلی کے 342اور چاروں صوبائی اسمبلیوں کے 728ممبران شامل ہیں۔ آئین کے تحت صوبائی اسمبلیوں میں سب سے کم تعداد والی بلوچستان اسمبلی کو دیگر صوبوں کے لئے میزان بنایاگیا ہے۔ بلوچستان اسمبلی کے ارکان کی تعداد 65ہے۔ لہذا پنجاب ، خیبر پختونخوا اور سندھ اسمبلیوں کے ووٹ بھی 65ہی شمار ہوں گے۔ اپوزیشن کے دوگروپوں کو یکجا کرنے کی کوششیں جاری ہیں۔ مولانا فضل الرحمان اور اعتزاز احسن میں سے کوئی ایک صدارتی انتخاب سے دستبردار ہوگیا تو انتخاب میں مقابلے کی فضاء پیدا ہوسکتی ہے۔ بصورت دیگر پاکستان تحریک انصاف کے امیدوار عارف علوی کو بظاہر عددی اکثریت حاصل ہے۔عارف علوی سے قبل پاکستان کی اکہتر سالہ تاریخ میں بارہ منتخب اور تین قائم مقام صدورگذرے ہیں۔قیام پاکستان کے بعد 14اگست 1947سے لے کر 11ستمبر 1948 تک بابائے قوم قائد اعظم محمد علی جناح سربراہ مملکت رہے۔ اس وقت سربراہ مملکت کو گورنر جنرل کہا جاتا تھا، 14ستمبر1948سے 17اکتوبر1951تک خواجہ ناظم الدین گورنر جنرل رہے۔18اکتوبر 1951سے 7اگست1955تک غلام محمد اس عہدے پر فائز رہے۔ 7اگست 1955سے 23مارچ1956تک سکندر مرزا پاکستان کے گورنر جنرل رہے۔ 23مارچ 1956کو ملک کے پہلے دستور کے نفاذ کے بعد گورنر جنرل کا عہدہ ختم کرکے صدر کا عہدہ متعارف کرایا گیا۔ اور سکندر مرزا ملک کے پہلے صدر بن گئے جو 27اکتوبر1958تک اس عہدے پر فائز رہے۔27اکتوبر1958کو جنرل ایوب خان نے سکندر مرزا کی حکومت کا تختہ الٹ دیا اور ملک میں پہلا مارشل لاء نافذ کردیا۔ چار سال تک جنرل ایوب چیف مارشل لاء ایڈمنسٹریٹر رہے۔ اس دوران انہوں نے بنیادی جمہوریتوں کے نام سے بلدیاتی نظام متعارف کرایا ۔ مشرقی اور مغربی پاکستان کے 80ہزار بلدیاتی ممبران کو انتخابی کالج بناکر کنونشن مسلم لیگ کے پلیٹ فارم سے محترمہ فاطمہ جناح کی کونسل مسلم لیگ کے مقابلے میں جنرل ایوب سے صدارتی الیکشن لڑا۔ اور8جون1962کو نئے آئین کے تحت صدر منتخب ہوگئے۔وہ 25مارچ 1969تک اس عہدے پر فائز رہے۔ اس عرصے میں 1965کی پاک بھارت جنگ ہوئی اور جنرل ایوب نے خود کو فیلڈ مارشل منوالیا۔ 25مارچ1969کو عوامی احتجاج سے مجبور ہوکر جنرل ایوب خان نے اقتدار نئے آرمی چیف جنرل آغا محمد یحییٰ خان کے حوالے کردیا جو 20دسمبر1971تک صدر کے عہدے پر فائز رہے۔ اس عرصے میں ملک میں بالغ رائے دہی کی بنیاد پر پہلی بار عام انتخابات کرائے گئے۔ مغربی پاکستان سے ذوالفقار علی بھٹو کی قیادت میں پاکستان پیپلز پارٹی اور مشرقی پاکستان سے شیخ مجیب الرحمان کی قیادت میں عوامی لیگ کو فیصلہ کن اکثریت حاصل ہوگئی۔ تاہم جنرل یحییٰ خان انتقال اقتدار سے پس و پیش کرتے رہے ۔ مشرقی پاکستان میں بغاوت شروع ہوگئی۔ بھارت نے فوجی مداخلت کرکے 16دسمبر1971کو مشرقی پاکستان کو توڑ دیا اور بنگلہ دیشن نام سے نئی ریاست قائم ہوئی۔ پاکستان کو دولخت کرنے کے بعد جنرل یحییٰ خان نے اقتدار ذوالفقار علی بھٹو کے حوالے کردیا۔ جو 13اگست1973تک سویلین چیف مارشل لاء ایڈمنسٹریٹر اور صدر کے عہدے پر فائز رہے۔14اگست1973کو پاکستان کا متفقہ آئین نافذ ہونے کے بعد ذوالفقار علی بھٹو صدارت سے الگ ہوگئے اور فضل الہیٰ چوہدری کو نیا صدر چن لیا گیا۔جو16ستمبر1978تک اس عہدے پر فائز رہے۔16ستمبر1978کو جنرل ضیاء الحق نے ملک میں تیسرا مارشل لاء نافذ کردیا۔اس دوران متنازعہ ریفرنڈم کے ذریعے انہوں نے خود کو صدر منتخب کروایا اور 17اگست1988کو بہاولپور فضائی حادثے تک اس عہدے پر فائز رہے۔جنرل ضیاء کے حادثے کے بعد غلام اسحاق خان صدر بن گئے۔اور18جولائی1993تک اس عہدے پر فائز رہے۔14نومبر1993کو فارق احمد لغاری صدر منتخب ہوئے۔اور دو دسمبر1997تک صدر رہے۔ یکم جنوری1998سے 20جون2001تک محمد رفیق تارڑ صدر رہے۔ اس دوران جنرل مشرف نے چوتھا مارشل لاء نافذ کردیا۔ غیر جماعتی انتخابات کے ذریعے بننے والی اسمبلیوں سے 20جون2001کو خود کو صدر منتخب کروایا اور 18اگست2008تک اس عہدے پر فائز رہے۔آصف علی زرداری نے 9ستمبر2008سے 9ستمبر2013اور ممنون حسین 30جولائی2013سے 4ستمبر2018تک صدر کے عہدے پر فائز رہے۔دریں اثناء وسیم سجاد 18جولائی سے 14نومبر1993اور پھر2دسمبر1997سے یکم جنوری1998تک جبکہ محمد میاں سومرو 18اگست2008سے 9ستمبر2008تک قائم مقام صدر کے طور پر کام کرتے رہے۔ ملک کے تیرھویں صدر کے عہدے کا تاج کس کے سر پر سجے گا۔ اس کا فیصلہ 4ستمبر کو ہوگا۔


شیئر کریں:
Posted in تازہ ترین, مضامینTagged
13118