Chitral Times

Mar 28, 2024

ﺗﻔﺼﻴﻼﺕ

موروثی سیاست……………. محمد شریف شکیب

Posted on
شیئر کریں:

پاکستان کا پارلیمانی جمہوری نظام عوام میں مقبول نہ ہونے کی ایک وجہ یہ بتائی جاتی ہے کہ یہاں کی جاگیردارانہ طرز سیاست میں موروثیت کا زیادہ عمل دخل ہے۔ بلوچستان سے سینٹ، قومی اور صوبائی اسمبلی میں اچکزئی، بزنجو، رئیسانی، مری، مینگل، بگٹی اور زہری خاندان سے باہر کا کوئی فرد خال خال ہی نظر آتا ہے۔ سندھ میں بھٹو، جتوئی، کھراور سادات خاندان کی اجارہ داری ہے تو پنجاب میں شریف، چوہدری، ٹوانے، قریشی، گیلانی اور مخدوم خاندان گذشتہ ستر سالوں سے ہر ایوان میں نظر آتا ہے۔ خیبر پختونخوا کی سیاست میں ایوب خان، غفار خان، ہوتی، سیف اللہ برداران، ختک خاندان اور مفتی محمود خاندان کے علاوہ والی سوات اور مہتر چترال کے خاندان کی اجارہ داری رہی ہے۔ مذہبی جماعتوں سمیت بیشتر سیاسی پارٹیوں نے موروثی سیاست کو پروان چڑھایا۔ شہری علاقوں کی نسبت دیہی علاقوں میں موروثی سیاست کی زیادہ گہری چھاپ نظر آتی ہے۔اب تک جماعت اسلامی اور چند چھوٹی پارٹیاں موروثی سیاست سے پاک رہی ہیں۔ مشاہدے میں آیا ہے کہ آمریت کے دور میں موروثی سیاست کو زیادہ تقویت ملتی رہی ہے۔ شہری سندھ میں مہاجر قومی موومنٹ نے موروثی سیاست کے خلاف علم بغاوت بلند کیا۔اور اس میں کافی حد تک کامیاب بھی رہی۔ عمران خان نے جب پاکستان تحریک انصاف کی بنیاد رکھی تو انہوں نے وی آئی پی کلچر کے ساتھ موروثی سیاست کو دفن کرنے کا اعلان کیا تھا۔ اپنی ذات کی حد تک انہوں نے عمل کرکے بھی دکھایا۔ عمران خان کے خاندان کا کوئی فرد وفاقی اور صوبائی سطح پر حکومت میں نظر نہیں آتا۔ مگر انتخابات کے موقع پر ’’ الیکٹ ایبلز‘‘ کی تلاش میں تحریک انصاف بھی موروثی سیاست دانوں کی محتاج ہوگئی۔ جس کی وجہ سے پی ٹی آئی پر لوٹاکریسی کو فروغ دینے کے الزامات بھی لگائے جاتے رہے۔ بات اگر انتخابات میں الیکٹ ایبلز‘‘ کو ٹکٹ دینے تک محدود رہتی تو بھی قابل قبول تھی۔ اب دیکھنے میں آرہا ہے کہ جس موروثی سیاست کو دفن کرنے کے لئے تحریک انصاف میدان میں آئی تھی۔ اسی پارٹی نے موروثی سیاست کے پچھلے سارے ریکارڈ توڑ دیئے۔ آفتاب شیر پاو، ولی خان ، سیف اللہ خاندان کا ایک ایک یا دو افراد بیک وقت اسمبلیوں میں جاتے تھے۔یا انہیں ٹکٹ جاری کیا جاتا تھا۔ نوشہرہ سے سابق وزیر اعلیٰ پرویز خٹک کے خاندان کے چھ افرادبیک وقت سیاست میں آگئے۔ جن میں خود وزیر دفاع پرویز خٹک، ان کے بھائی اور ضلع ناظم لیاقت خٹک، داماد عمران خٹک، بیٹا، بھابھی اور بھتیجی شامل ہیں۔ ایک ہی خاندان کے چار افراد پہلے ہی اسمبلیوں میں موجود تھے۔ اب ضمنی انتخابات کے لئے بھائی اور بیٹے کو ٹکٹ جاری کرکے سابق وزیراعلیٰ نے پاکستانی سیاست میں ایک نیا ریکارڈ قائم کیا ہے۔ تحریک انصاف کے سیاسی مخالفین ہی نہیں، خود پارٹی کے لئے قربانیاں دینے والے کارکن حیران اور پریشان ہیں کہ کیا پورے ضلع نوشہرہ میں سابق وزیر اعلیٰ کو کوئی تعلیم یافتہ امیدوار نہیں ملا؟ جو انہوں نے اپنے بھائی اور بیٹے کو انتخابی میدان میں اتارنے کا فیصلہ کیا ہے۔ کہا جاتا ہے کہ جس اجلاس میں ضمنی انتخابات کے لئے امیدواروں کو ٹکٹ جاری کیا گیااس میں ایک ہی خاندان کے افراد شامل تھے۔ سابق وزیراعلیٰ کے داماد جو رکن قومی اسمبلی بھی ہیں۔ انہوں نے اپنے سالے اور چچا سسر کے کاغذات نامزدگی خود ہی بھرے، تجویز کنندہ بھی وہی تھے اور تائید کنندہ بھی۔اس صورتحال پر اردو کا وہ محاورہ صادق آتا ہے کہ ’’ اندھا بانٹے ریوڑیاں، مڑ مڑ اپنوں کو دے‘‘موروثی سیاست، وی آئی پی کلچر اور کرپشن سے آلودہ پاکستان کی بدبودار سیاست میں تحریک انصاف کی انٹری کو عوام امید کی نئی کرن اور بارش کا پہلا قطرہ سمجھتے ہیں۔ عوام نے پی ٹی آئی کو معاشرے میں حقیقی تبدیلی لانے کے لئے بھرپور مینڈیٹ بھی دیا ہے۔ اور عوام کو یہ توقع ہے کہ اگلے پانچ سالوں میں پاکستان کا سیاسی کلچر تبدیل ہوگا۔ جمہوریت کے ثمرات عوام تک پہنچیں گے۔ قوموں کی برادری میں پاکستان کی ساکھ بحال ہوگی۔مظلوموں کی آواز ایوانوں تک پہنچے گی۔ عوام کو فوری اور سستا انصاف ملے گا۔ قومی وسائل میں انہیں ان کا جائز حق ملے گا۔ کوئی غاصب عوام کے حقوق غصب اور وسائل پر ناجائز قبضہ نہیں کرسکے گا۔ لیکن ان اعلیٰ ترین قومی مقاصد کوموروثی سیاست کے ذریعے حاصل کرنے کی کوشش خود فریبی کے سوا کچھ نہیں ہوگی۔


شیئر کریں: