Chitral Times

Mar 28, 2024

ﺗﻔﺼﻴﻼﺕ

انٹری ٹیسٹ اور چترالی طالب علموں‌کے مسائل….. شاہد ظفر

Posted on
شیئر کریں:

۳ جولای۲۰۱۸ کی بات ہےکہ میں اپنی چھوٹی بہن کو لیکر مردان آگیا جہاں اُسے مڈیکل کی انٹری ٹسٹ دینا تھا۔ٹسٹ ۵ جولای کو منغقد ہونے والا تھا اس لیے ہوٹل میں ٹھرنا پڑا۔گرمی کی شدت ،اوپر سے بجلی کی آنکھ مچولی۔ﷲ بہتر جانتا ہے کہ وہ دو دن ہم نے ہوٹل میں کیسے گُزارے۔لیکن پھر بھی کفر ٹوٹا خدا خدا کرکے، ٹسٹ کا دن آیا لیکن ھماری شومی قسمت کہ اس دن بارش ایسے جم کے برسی کہ سارا نظام مفلوج ہوکر رہ گیا۔

انتظامیہ نے چونکہ اپنے فائدے کے لئے ٹسٹ کیلئے کھلے میدان میں انتظامات کروائے تھے.جو بارش کی نذر ہو گئ.۔ٹیسٹ ۱۹ اگست کو دوبارہ کروانے کا اعلان کر دیا گیا ۔چاروناچار ۱۹ تاریخ کے لئے دوبارہ آنا ُپڑا۔پھر سے وہی پریشانیاں اور ھم۔ مگر اس بار قدرت کو ہماری حالت پر رخم آگیا اور ٹسٹ ہو گیا۔ہم واپس گاوں چلے گئے لیکن گھر پہنچنے سے پہلے ہی پتہ چلا کہ ٹسٹ شروع ہونے سے پہلے ہی سماجی رابطوں کی ویب سائٹ پر آگیا تھا۔اب پتہ نہیں دوبارہ کب جہاں پناہ کی طرف سے بلاوا آجائے اور ہم سر کے بل چل کر حاظر ہو جا ِینگے۔
یہ مسلہ صرف میرے ساتھ نہیں ہوا ہےاور نہ یہ پہلی بار ہے۔چترالئ میں ایک کہاوت ہے جس کا ترجمہ کچھ اس طرح ہےکہ :گدھے تجھے میرے مرنے کا پتہ ہے اس لئے میرا گندم کھا رہے ہو۔

ہم چترالئوں کے ساتھ بھی کچھ اس طرح ہوتا آیا ہے۔صرف داخلے کے ٹسٹوں تک بات ہوتئ تو ٹھیک تھا۔لیکن یہاں پہ تو سب کچھ الٹا ہے۔
ایک ٹسٹ،جس پہ شہر میں رہنے والے بندے کا زیادہ سے زیادہ (۱۰۰۰) کا خرچہ آتا ہے ،اسی ٹسٹ پہ ایک غریب چترالی کا کم از کم ۵ سے ٦ ہزار کا خرچہ آتا ہے جس کی وجہ سے ایک قابل ،مگر غریب شہری، ملک کی خدمت کے مواقع سے محروم ہو جاتا ہے یا کر دیا جاتا ہے۔

کسی بھی علاقے کے لیڈر وہاں کے مسائل کو حل کرنے کے لئے سنجیدگی سے کوشش کرتے ہیں،مگر ہما ری بدقسمتئ کہ ہمارے لیڈر مسائل کو حل کرنے کے بجائے ان پہ سیاست چمکانے کو ترجیع دیتے ہیں۔وگرنہ اگر ٹسٹ دیر، سوات، بونیر وغیرہ میں کروائے جا سکتے ہیں تو چترال میں کیوں نہیں۔
میری تمام دوستوں سے التماس ہے کہ اس پیغام کو زیادہ سے زیادہ پھلائیں۔ضروری نہیں کہ میرا لکھا ہوا ہی آگے بڑھائیں،آپ اپنی طرف سے بھی مختلف جگہوں پہ اس پر بات کر سکتے ہے ۔یہاں تک تو آواز اتنی اونچی ہو کہ ناخداوں کے بہرے کانوں تک پہنچ جائے۔
میں اپنی کوشش کر رہا ہوں لیکن تجربوں نے ہمیں سکھایا ہے کہ
ہم وہ سیاہ نصیب ہیں طارق کے شہر میں
کھولیں دکاں کفن کی تو سب مرنا چھوڑ دیں۔

لیکن پھر بھی میں ﷲ کی رخمت سے مایوس نہیں ہوں کیونکہ مجھے پتہ ہے کہ ہر تاریک رات کے بغد دن کا آنا لازم ہے۔

فقط شاہد ظفر موڑکہو


شیئر کریں: