Chitral Times

Mar 29, 2024

ﺗﻔﺼﻴﻼﺕ

تعلیمی بحران اور اس کا اصلاح..(قسط اول)……تحریر: دیدار علی شاہ

Posted on
شیئر کریں:

ایک چینی کہاوت ہے کہ ’’ خوشحالی کے لئے اگر ایک سال کہ منصوبہ بندی کرنی ہے تو فصلیں اُگاو۔ اگر ایک سو سال کی منصوبہ بندی کرنی ہے تو درخت اُگاو۔ اگر ایک ہزار سال تک قوموں کے آگے وقار سے سر اٹھا کر چلنا ہے تو تعلیم پر سرمایہ لگاو ‘‘
اس لئے یہ کہنا بجا ہے کہ کسی بھی معاشرے میں تبدیلی یا جدت شعور سے آتی ہے اور شعور تعلیم سے ممکن ہے۔اور تعلیم کے حصول کے لئے ضروری ہے کہ وقت کے ساتھ اس کے بنیادی اصولوں کو اپنا کر اس پر عمل کیا جائے۔ مگر پاکستان میں حالات مختلف ہے۔ الفاظ کی جنگ میں ہم اتنے آگے نکل چکے ہے اور یہاں پر ایسا کوئی تعلیمی ادارہ نہیں ہے جہاں پر یہ بات نہ پڑھاتے ہوں کہ ’’ ہم ایک عظیم قوم ہے‘‘، ’’جن قوموں نے تعلیم کے فروغ کو اپنا مرکز و محور بنایا وہی ممتاز اقوام ہونے کا اعزاز حاصل کیا ‘‘ اور فخر سے اس بات کا اظہار بھی کرتے ہے کہ’’ پیغمبر اسلام حضرت محمدؐ پر پہلی وحی نازل کی گئی وہ اقراء یعنی پڑھو سے شروع ہوتی ہے‘‘۔ یہ تمام وہ ساری باتیں ہے جو ہم فخر سے اسکولوں میں پڑھا رہے ہیں ۔ جبکہ ہمارے ملک میں حالات اس کے برعکس ہے۔
علم انسان کے انفرادی عمل کے نتائج کو کہتے ہے اور تعلیم کسی دوسرے انسان کے مشاہدات اور تجربات کے بیان کا نام ہے۔ انسان جب کوئی عمل سرانجام دیتا ہے تو اس کے نتیجے کو علم کہہ سکتے ہے اور اس نتیجے کو جمع کر کے الفاظ میں بیان کریں تو دوسروں کے لئے وہ تعلیم کا درجہ رکھتا ہے۔اور تعلیم معلومات کے ایسے مجموعے کو بھی کہتے ہے جو انسان کے انفرادی تجربات سے منزہ ہو۔ اگر انسان خود عمل کر کے نتائج حاصل کر لے تو وہ عالم کہلاتا ہے جبکہ معلومات کے اجتماع کے حامل کو عالم نہیں کہا جا سکتا۔ تعلیم وہ راستہ ہے جس پر چل کر کامیابی،ترقی اور خوشحالی کی منزلیں طے کی جاتی ہے اور اس کا ثبوت آج کی دنیا میں سائنسی ترقی ہے۔
کسی بھی ملک یا سوسائٹی میں عقلی شعور و ترقی، علم، وژن، خودشناسی، دانش و حکمت ، زمانہ سازی اور بلند پروازی کا جذبہ، یہ سب تب ممکن ہے جب اس کے لئے ایک مربوط نظام موجود ہوں اور اسی نظام کو نظام تعلیم کہا جاتا ہے۔ اسی نظام کے ذریعے سے ملک و قوم اور نسلوں کو مستقبل کے لئے تیار کیا جاتا ہے۔
پاکستان کے نظام تعلیم کو جب ہم سمجھنے کی کوشش کرتے ہے تو ہمارے سامنے تعلیم کے ایسے ذرایعے سامنے آتے ہے جس میں سرکاری اسکول، انگلش میڈئم ، نجی تعلیم اور مدرسہ سسٹم موجود ہے ان تمام تعلیمی اداروں میں اپنا مخصوص تعلیمی نصاب رائج ہے۔ ان تمام نظام تعلیم کے درمیان کوئی روابط موجود نہیں اور ان چاروں نظام تعلیم سے فارغ التحصیل نوجوان معاشرے میں ایک دوسرے کے لئے قبولیت موجود نہیں جس سے معاشرے میں عدم توازن اور تفریق جنم لے رہی ہے۔
پاکستان بننے کے بعد مختلف ادوار میں سات تعلیمی پالیسیاں ، آٹھ پانچ سالہ منصوبے، مختلف سکیمیں ، بے شمار کانفرنسز اور سمینارز منعقد ہوئے ۔لیکن حیرت کی بات یہ ہے کہ تعلیمی نصاب کو تبدیل کرنے کے لئے کوئی اقدامات نہیں کئے گئے۔جس کی وجہ سیاسی مفادات اور دیگر مسائل موجود تھے اور موجود ہے۔اسی وجہ سے یہاں پر نظام تعلیم عدم توجہی کا شکار ہے اور یکساں تعلیمی نظام بھی موجود نہیں۔ اسی وقت پوری جنوبی ایشیا میں پاکستان واحد ملک ہے جو تعلیم پر سب سے کم خرچ کرتا ہے جو کہ جی ڈی پی کا صرف 2فیصد ہے۔اور یہاں پر 60 سال پرانا سکینڈری ایجوکیشن سسٹم ہے ان تمام وجوہات کی بنا پر پاکستان میں آوٹ آف سکول بچوں کی تعداد 25 ملین ہے اور عالمی رینکنگ کے مطابق پاکستان کی کوئی بھی یونیورسٹی دنیا کی بہترین 500 یونیورسٹیوں میں شامل نہیں ہے۔
اگر ہم تاریخی اعتبار سے پاکستان میں نظام تعلیم کو دیکھے کہ کس طرح سے سیاستدانوں نے اپنے سیاسی مقاصد کے لئے اسے استعمال کیا ہے اور مخصوص نظریات کو اپنی حمایت کے لئے استعمال کیا ہے۔ تو سب سے پہلے ایوب خان کے دور حکومت 1958-1969 کے دوران سارا زور معاشی ترقی پر دیتا رہا اور معاشرتی ترقی نظر انداز ہوتی رہی۔پھر ضیاالحق کے دور میں 1977-1988 کے درمیان تعلیمی اداروں میں اسلامائزیشن کے اصطلاح کا بھر پور استعمال کیا۔بھر آیا مشرف کا دور 1999-2008 اس دوران معتدل روشن خیالی پر زور دیتا رہا۔ بھٹو نے بھی روٹی کپڑا اور مکان کے نام پر خوب تماشا کی ہے۔ ان سب کا مقصد صرف اور صرف سیاسی اور اپنا حکومت برقرار رکھنا تھا ۔ابھی عمران خان نے بھی نیا پاکستان کا نعرہ بلند کی ہے اور اس کا نتیجہ آنے والے وقت ہی بتائے گا۔
اسی لئے ان تمام وجوہات کی بنا پر ہمارے معاشرے میں مختلف قسم کے مسائل میں روز بروز اضافہ ہوتا جا رہا ہے۔ یعنی ان چار قسم کے نظام تعلیم سے ہم معاشرے میں چار قسم کے سوچنے والے افراد کو تیار کرتے آرہے ہیں جن سے فائدہ نہیں نقصان زیادہ ہے۔
اب ہم مختلف اداروں کے رپورٹس کو دیکھ کر پاکستان کے تعلیمی نظام اور حالات کو سمجھنے کی کوشش کریں گے۔الف اعلان اور ایجوکشنل پلاننگ رپورٹ ورلڈ فوڈ پروگرام کے مطابق پانچ سے نو سال کے 32% بچوں کے لئے پاکستان میں سکول ہی موجود نہیں ہے۔ 17%پرائمری اسکولز صرف ایک کمرہ پر مشتمل ہے۔ 8%اسکولز ایسے ہے جن کا سرے سے کوئی بلڈنگ موجود ہی نہیں ہے۔ 37%سکولز بغیر ٹائلٹ کے ہے۔ اور تقریباََ 50% سکولزمیں بجلی کی فراہمی نہیں ہے۔
ہیومن رائٹس کمیشن آف پاکستان کی سالانہ رپورٹ کے مطابق پاکستان میں اعلیٰ تعلیمی شعبے کو تنزیلی کا شکار قرار دیتے ہوئے بحرانی کیفیت کا شکار قرار دیا ہے۔اور ساتھ ساتھ ورلڈ اکنامک فورم کی ہیومن کیپٹل رپورٹ 2017 کے مطابق پاکستان تعلیم اور ہنرمندی کے حوالے سے 130 ممالک میں 125 ویں نمبر پر ہے۔ جبکہ دوسرے جنوبی ایشیائی ممالک کے مقابلے میں بھی علمی مسابقتی رپورٹ 2017-18 کے مطابق پاکستان اعلیٰ تعلیم اور تربیت کے شعبوں میں 120 ویں نمبر پر ہے۔
یونیسکو اقوام متحدہ کی رپورٹ کے مطابق پاکستان میں شرح خواندگی میں کمی واقع ہورہی ہے اور 67لاکھ بچے سکول جانے کی عمر ہونے کے باوجود سکول نہیں جارہے ہیں۔یہ بچے یا تو گھروں میں ہی ہے یا تو چائلڈ لیبر کا حصہ ہے۔ مزید اعدادوشمار کے مطابق 59%بچے سکول داخل ہوتے ہی سکول جانا چھوڑ دیتے ہے۔اور ساتھ ساتھ 45سے 54 سال کی عمر تک کے افراد میں شرح خواندگی صرف 46% ہے اور مختلف شعبہ جات میں روزگار کمانے والے 54% افراد ناخواندہ ہے یعنی پاکستان میں پروڈیکٹیو پاپولیشن کا 54% پاپولیشن ناخواندہ ہے۔اسی رپورٹ میں یہ بھی بتایا گیا ہے کہ پاکستان کی شرح خواندگی اور معیار تعلیم خطے میں سب سے کم ہے۔اور پاکستان میں صرف ایک فیصد نوجوان کالج ایجوکیشن حاصل کرتے ہے۔
یونیسکو کی ایجوکیشن فار آل گلوبل مانیٹرنگ رپورٹ کے مطابق پاکستان کے 5.3ملین بچے سکول ہی نہیں جاتے جو دنیاکے سکول سے باہر بچوں کا 9.25% ہیں ۔ اسی رپورٹ میں بتایا گیا ہے کہ پاکستان کے 49 ملین بالغ افراد لکھنا پڑھنا تک نہیں جانتے۔ یعنی دنیاکے 6.30% بالغ ناخواندہ کا تعلق پاکستان سے ہے۔
یونیسف اقوام متحدہ کے رپورٹ کے مطابق پاکستان میں 6کروڑسے زائد بچے پرائمری اور 2کروڑ سے زائد بچے سیکنڈری لیول کی تعلیم سے محروم ہے۔
ایک انٹرنیشنل ادارے کی رپورٹ کے مطابق پاکستان کا تعلیمی نظام دوسرے ممالک کے مقابلے میں 50 سے 60 سال پیچھے ہے۔
پاکستان کا اعلیٰ تعلیمی شعبہ 187 سرکاری و نجی جامعات اور 110 سے زائد علاقائی کیمپسزکے ساتھ وفاق اور صوبائی سطح پر 120 ارب سے زائد سالانہ بجٹ کا حامل ہے۔ (جاری ہے)


شیئر کریں: