Chitral Times

Mar 29, 2024

ﺗﻔﺼﻴﻼﺕ

ذرا سوچیے…….تحریر : ہما حیات سید چترال

Posted on
شیئر کریں:

میرے گھر کی ویرانی کو سکون کا نام دیتے ہیں۔ جلا کر میری بستی کو دئیے کا کام لیتے ہیں
ہوا جو ان کا گھر روشن تو آنکھیں پھیر لیتے ہیں۔ ضرورت ان کو اکثر ہو تو آکے تھام لیتے ہیں

نہ جانے شمالی علاقہ جات کے ان برف پوش پہاڑوں میں اور کون کونسے خزانے چھپے ہونگے۔ لیکن ان کے دامن میں موجود گلشیرز جوکہ تازہ پانی کے ذخائر ہیں ہمارے لئے کسی خزانے سے کم نہیں۔لیکن کچھ عرصے یہ بھی ذوال کا شکار ہیں ۔

ماحولیاتی تبدیلی کی وجہ سے ان کے پگھلنے کا عمل بھی زیادہ ہو گیا ہے۔ اور ہر سال ان کو 5 فی صد تک کا نقصان پہنچتا ہے ۔ اگر یہ اسی طرح جاری رہاتو5 سالوں میں بہت کچھ تبدیل ہو سکتاہے۔ یہ پورے گلیشرز پگھل چکے ہونگے۔ ا ور یہ پورا علاقہ مکمل طور پر بنجر بن چکاہوگا۔یہاں زندگی کی بقاء کے نام پر صرف سانپ اور بچھو ہی رہ چکے ہونگے۔

اب اس ماحولیاتی تبدیلی اور گلیشرز پر اس کے اثر کا اندازاہ ہم اس بات سے لگا سکتے ہیں کہ کچھ سالوں سے شمالی علاقے بالخصوص چترال میں میٹھے چشموں کا پانی یا تو کم ہو گیا ہے یا پھر مکمل طور پر خشک ہو چکاہے ۔ اگر یہ سلسلہ ہی جاری رہا تو اس سے نہ صرف شمالی علاقے بلکہ میدانی علاقے بھی محفوظ نہیں رہ سکے۔ وہ بھی بنجر بن جائیں گے۔ کیونکہ اگر شمالی علاقے کے یہ گلیشرز ختم ہو گئے توہمارے پاس پانی ذخائر بھی ختم ہو جائیں گے ۔کیونکہ اس پانی کو محفوظ کرنے کے لئے ہمارے پاس ڈیم موجود نہیں ہیں۔

اس لئے میں ایم این اے مولانا عبدالاکبر چترالی صاحب سے ایک بیٹی ہونے کی حیثیت سے یہ درخواست کرتی ہوں کہ خدارا۔ آپ قومی اسمبلی میں ہمارے لئے آواز اٹھائیں۔اور پوچھیں ان سے کہ آخر کیوں یہ لوگ اپنی ترقی کے لئے ہمارا گھر اجاڑ رہے ہیں؟آخر ہم کریں تو کیا کریں؟ کیا ان کے لئے ترقی انسانی جانوں سے بڑھ کر ہے ؟ کیا یہ ترقی کے دھن میں اتنا مست ہو گئے ہیں۔ کہ ہماری چیخ و پکار بھی ان کی سماعت تک نہیں پہنچ رہی ہے؟ اور پھر ذرا سوچئے۔۔۔۔گلیشرزہیں تو ہمارا پاکستان سرسبز ہے۔


شیئر کریں: