Chitral Times

Mar 28, 2024

ﺗﻔﺼﻴﻼﺕ

اصلاح احوال کا جامع منصوبہ…….. محمد شریف شکیب

Posted on
شیئر کریں:

وزارت عظمیٰ کا منصب سنبھالنے کے بعد قوم سے اپنے پہلے خطاب میں وزیراعظم عمران خان نے ان تمام مسائل کی نشاندہی کی جو عام آدمی کو درپیش ہیں۔انہوں نے وی آئی پی کلچر ختم کرنے، سادگی اپنانے، غیر ضروری اخراجات پر قابو پانے، کفایت شعاری کے زریعے خود کفالت کی منزل پانے، وزیراعظم ہاوس کو بین الاقوامی معیار کا تحقیقی مرکز بنانے، ایوان صدر اور گورنر ہاوسز خالی کرنے ، تعلیم اور صحت کی سہولیات عام کرنے کا اعلان کیا۔وزیراعظم کا کہنا تھا کہ اکیس کروڑ پاکستانیوں میں سے صرف آٹھ لاکھ ٹیکس دیتے ہیں۔ لوگ اسوجہ سے ٹیکس نہیں دیتے کہ انہیں ٹیکس جمع کرنے والے اداروں پر اعتماد نہیں۔ اگر انہیں یقین ہوجائے کہ ان کے ٹیکس کی پائی پائی قوم اور ملک پر خرچ ہوگی تو لوگ خود ٹیکس دینا شروع کریں گے اس لئے اداروں کی تطہیر ناگزیر ہے۔ وزیر اعظم نے پانی کے ذخائر بڑھانے، قرضہ لینے کے بجائے خود انحصاری کی پالیسی اختیار کرنے ، ماحولیاتی تبدیلیوں کے خطرناک اثرات سے بچنے کے لئے زیادہ سے زیادہ درخت لگانے کا اعلان کیا۔ انہوں نے ایف آئی اے اور احتساب کے اداروں کو مضبوط بنانے ، کرپٹ لوگوں کا کڑا محاسبہ کرنے اور کرپشن کی نشاندہی پر انعامات کا بھی اعلان کیا۔وزیراعظم کی تقریرقومی امنگوں کے عین مطابق ، ہمہ گیراورجامع تھی۔قوم سے وزیراعظم کاخطاب ان کے ارادوں کا عکاس ہے۔ناقدین کا کہنا ہے کہ جنرل ضیاء الحق اور جنرل مشرف نے بھی بڑی جامع پلان عوام کے سامنے پیش کیا تھا۔ لیکن اپنے وعدوں کو عمل کا جامہ نہیں پہنا سکے۔ کچھ لوگوں کا کہنا ہے کہ وزیراعظم نے مسائل کی نشاندہی تو کردی لیکن ان کا کوئی حل پیش نہیں کیا۔ کسی کا کہنا ہے کہ عمران خان نے کوئی بڑا منصوبہ شروع کرنے، اپنے اخراجات ذاتی جیب سے ادا کرنے، کشمیر اور شمالی علاقہ جات کا مسئلہ حل کرنے کا کوئی ذکر نہیں کیا۔ کسی کو اعتراض ہے کہ ان کے ساتھ ایسی ٹیم ہی نہیں کہ اپنے منصوبوں کو عملی جامہ پہنا سکے۔ان اعتراضات کی ایک وجہ یہ ہے کہ ماضی میں حکمران عوام کو دھوکہ دیتے رہے۔ یہ اعتراضات مایوس ذہن کے عکاس ہیں۔ کچھ لوگوں کو دوسروں میں خواہ مخواہ کیڑے نکالنے کی بیماری ہوتی ہے۔ ان کا علاج دنیا کے کسی ڈاکٹر اور حکیم کے پاس نہیں۔ آج تک کسی حکمران نے امر بالمعروف اور نہی عن المنکر کی ترویج اور پاکستان کو مدینہ جیسی فلاحی اسلامی ریاست بنانے کا اعلان نہیں کیا۔ آج عمران خان نے اگر ملک و قوم کے لئے کچھ بہتر کرنے کا ارادہ کیا ہے تو اچھی بات کی تعریف تو بنتی ہے۔ اگر وہ اپنے پانچ سالہ دور اقتدار کے دوران اپنے پچاس فیصداعلانات پر بھی عمل درآمد کرکے دکھاتا ہے تو یہ بھی بڑی تبدیلی ہوگی۔ ان کے سیاسی مخالفین اگر ان کی پالیسیوں، طرز تخاطب اور ذاتی زندگی پر کیچڑ اچھالتے ہیں تو اس کی وجہ یہ ہے کہ وہ سٹیٹس کو برقرار رکھنا چاہتے ہیں اسی میں ان کی سیاسی بقاء مضمر ہے اور عمران خان سٹیٹس کو بدلنا چاہتے ہیں ۔اگر عام آدمی ناانصافی، وی آئی پی کلچر، لوٹ مار، کرپشن ، رشوت ستانی اور اقرباپروری کا نظام ختم کرنے کی مخالفت کرتا ہے تو وہ کسی اور پر نہیں ، اپنے اور اپنے بچوں پر ظلم کرتا ہے۔بدقسمتی سے اس ملک میں گذشتہ ستر سالوں سے ایک سوچ کو پروان چڑھایا گیا۔ اس سوچ کو بدلنا ناگزیر ہے۔ جب صاحبان اقتدارخود سادگی اور کفایت شعاری اپنائیں گے تو پوری قوم ان کی تقلید کرے گی۔عمران خان کی یہ عادت ہے کہ وہ کسی کام کو انجام دینے کا قصد کرتے ہیں تو اسے انجام دیکر ہی چھوڑتے ہیں۔ ان کی پوری زندگی جدوجہد، حالات کا مقابلہ کرنے اور شکست قبول نہ کرنے سے عبارت ہے۔ اس لئے توقع رکھنی چاہئے کہ وہ اس قوم کی حالت ضرور بدلیں گے۔ مذہبی رجحانات رکھنے اور عوام کا درد رکھنے والے طبقات کو چاہئے کہ پاکستان کو مدینہ منورہ جیسی اسلامی فلاحی ریاست بنانے کا عزم رکھنے والوں کے ہاتھ مضبوط کریں۔ہم یہ بات دہرانا چاہتے ہیں کہ انتخابات میں پی ٹی آئی کی غیر معمولی کامیابی کے پیچھے عوام کی یہ سوچ کارفرما ہے کہ آخری امید کے طور پر عمران خان کو قیادت سونپ کر آزمایا جائے۔ شاید وہ پاکستان کو اس کے قیام کے مقاصد اور منزل کے قریب لے جائے۔ اگر خدانخواستہ وہ بھی ناکام رہا۔ یا انہیں ناکام کرنے کی کوشش کی گئی تو یہ پاکستان میں جمہوریت کے مستقبل کے لئے بہت ہی بد شگون ثابت ہوگا۔


شیئر کریں: