Chitral Times

Mar 29, 2024

ﺗﻔﺼﻴﻼﺕ

عمران خان کی استقامت کا امتحان……….محمد شریف شکیب

Posted on
شیئر کریں:

پاکستان تحریک انصاف کے چیئر مین عمران خان نے ملک کے بائیسویں وزیراعظم کی حیثیت سے حلف اٹھا لیا۔ ملک میں جمہوری عمل کا تسلسل انتہائی خوش آئند ہے۔ تاہم وزیراعظم کے انتخاب کے موقع پر پارلیمنٹ ہاوس میں جو مناظر دیکھنے کو ملے۔ وہ افسوس ناک اور تکلیف دہ تھے۔ ان مناظر سے اس حقیقت کی عکاسی ہوتی ہے کہ ہم بحیثیت قوم سیاسی طور پر بالغ نہیں ہوئے۔ وزیراعظم کے انتخاب کے موقع پر ایوان کے اندر نعرے بازی، شور شرابے اور دھرنے میں دونوں بڑی جماعتوں کے منتخب ارکان اور کارکن شامل تھے۔ جبکہ ملک کی تیسری بڑی جماعت پیپلز پارٹی اور جماعت اسلامی نے خود کو اس ہنگامہ آرائی سے الگ تھلگ رکھا۔وزیراعظم کے انتخاب کے بعد اپوزیشن رہنما کی حیثیت سے بلاول بھٹو نے جو تقریر کی وہ بھی بہت پراثر تھی۔ بلاول نے ثابت کیا ہے کہ سیاسی بالغ نظری کے لئے عمر کی کوئی قید نہیں ہوتی۔ ان کے سیاسی مخالفین اور میڈیا نے بھی پیپلز پارٹی اوربلاول کے طرز عمل کا سراہا۔یہی کسی پارٹی کی سیاسی تربیت کا فرق ہوتا ہے۔ پارلیمنٹ ہاوس کے اندر جو صورتحال 17اگست2018کو نظر آئی۔ ایسی ہی صورتحال 1977میں بھی تھی۔اگر سیاست دان اسی طرح غیر سنجیدہ طرز عمل کا مظاہرہ کرتے رہے۔ تو سیاسی نظام کا تسلسل برقرار رہنے کے باوجود جمہوری نظام کو استحکام نہیں مل سکتا۔ اورکسی بھی وقت جمہوریت کی گاڑی پٹڑی سے اتر سکتی ہے جس کا خمیازہ نہ صرف سیاسی جماعتوں بلکہ پوری قوم کو بھگتنا پڑے گا۔مسلم لیگ ن اور جے یو آئی نے انتخابات میں دھاندلیوں کی تحقیقات کے لئے کمیشن کے قیام کا مطالبہ کیا ہے پی ٹی آئی نے اس پر آمادگی کا اظہار بھی کیا ہے۔ پاکستان کی جمہوری تاریخ میں 1971کے انتخابات کو سب سے شفاف، غیر جانبدارنہ اور منصفانہ تسلیم کیا گیا تھا۔ اس کے بعد جتنے انتخابات ہوئے ۔ ان میں دھاندلی کے الزامات لگائے گئے۔2008اور 2013کے انتخابات میں بھی وسیع پیمانے پر دھاندلی کے الزامات لگائے گئے۔ عمران خان نے مطالبہ کیا تھا کہ صرف چار حلقے کھولیں دھاندلی ثابت ہوجائے گی۔ اسی مطالبے کو لے کروہ چار مہینے تک ڈی چوک میں دھرنا دے کر بیٹھے رہے۔ یہ بھی حقیقت ہے کہ 2018کے انتخابات میں کم و بیش ایک کروڑ نئے ووٹروں نے اپنا حق رائے دہی استعمال کیا۔ ان میں سے 90فیصد نوجوانوں نے پی ٹی آئی کو ووٹ دیا۔ عام لوگ بھی روایتی سیاست سے نالاں تھے۔ انہوں نے بھی تبدیلی کا نعرہ قبول کیا اور پی ٹی آئی کے حق میں اپنا ووٹ استعمال کیا۔ بدلتی صورتحال میں تحریک انصاف کو انتخابات میں اکثریت ملنا فطری بات ہے۔ دھاندلی کے الزامات لگانے والوں میں اکثریت ان لوگوں کی ہے جو اپنا سیاسی مستقبل تاریک ہوتا دیکھ رہے ہیں اور اپنی بقاء کے لئے دھاندلی کا نعرہ لگا کر ملک میں سیاسی استحکام پیدا کرنا چاہتے ہیں جو کسی بھی لحاظ سے قابل قبول نہیں۔ ڈی چوک دھرنے کا صلہ عمران خان کو اقتدار کی صورت میں مل چکا ہے۔ اب عمران خان کی صلاحیتوں کا اصل امتحان شروع ہوگیا ہے۔ انہیں اپنے وعدوں کو عملی جامہ پہنا کر عوام کی امنگوں کی ترجمانی کرنا ہے۔ جن میں وی آئی پی کلچر کا خاتمہ، کرپشن کو جڑ سے اکھاڑ پھینکنا، بلاامتیاز اور کڑا احتساب، ملک کی لوٹی ہوئی دولت واپس لانا، اداروں کو مضبوط کرنا، سفارش کلچر کو ختم کرنا، مہنگائی پر قابو پانا، عوام کے لئے روزگار کے مواقع پیدا کرنا، اقوام عالم کے ساتھ تعلقات مضبوط کرنا، پاکستان کی ساکھ بہتر بنانا، پائیدار امن کا قیام اور تعمیرو ترقی کا عمل جاری رکھنا شامل ہے۔ یہ کام کرنا اتنا آسان نہیں۔ جتنا کہنے میں آسان لگتا ہے۔ تاہم انہوں نے سیاست میں جس استقامت کا مظاہرہ کیا ہے۔ اس کی بنیاد پر یہ توقع رکھی جاسکتی ہے کہ اگر عمران خان نے اپنے 50فیصدوعدے بھی پورے کرلئے تو عوام کو تبدیلی نظر آئے گی جس کی عوام توقع رکھتے ہیں۔ اگر خدا نخواستہ تحریک انصاف بھی عوامی توقعات پر پورا نہ اتر سکی۔ توجمہوریت کو نقصان پہنچنے کا خدشہ ہوسکتا ہے۔ ملک کی تمام جمہوری قوتوں کو ذمہ داری کا مظاہرہ کرنا ہوگا۔مفادات کی سیاست کے باعث سیاسی نظام سے عوام کا اعتماد اٹھنے لگا ہے۔ عوامی اعتماد کی بحالی سیاسی اور جمہوری قوتوں کی مشترکہ ذمہ داری ہے۔


شیئر کریں: