Chitral Times

Mar 28, 2024

ﺗﻔﺼﻴﻼﺕ

جشن آزادی منانا فرض۔۔۔!……….قادر خان یوسف زئی

Posted on
شیئر کریں:

پارلیمانی انتخابی مرحلہ قریباً اختتام پذیر ہے۔ سادہ اکثریت کے ساتھ تحریک انصاف اپنی حکومتی باری کا باقاعدہ 18اگست کے بعد سے آغاز کردے گی۔ اپوزیشن جماعتوں کی حکمت عملی واضح ہے، لیکن الیکشن کمیشن اسلام آباد کے سامنے بعض اپوزیشن جماعتوں کی جانب سے ایک ایسا متنازع احتجاج کیا گیا جسے افسوس ناک کہا جاسکتا ہے۔ 14اگست کسی مخصوص سیاسی جماعت سے جڑا عام جشن کا نام نہیں، بلکہ یہ یوم پاکستانی قوم کی انگریزوں اور شدت پسند ہندوؤں سے ’غلامی سے آزادی‘ کے طور پر منایا جاتا ہے۔ جشن آزادی منانے سے ملک دشمنوں کے دل انگارے بن جاتے ہیں، ان کے تن بدن میں آگ لگ جاتی ہے۔ ہمارے آبا و اجداد نے انگریزوں کے خلاف مسلح مزاحمت کرکے ہزاروں جانوں کی قربانیاں دی ہیں۔ ان کی قربانیوں کو خراج عقیدت پیش کرنے کا یہی سنہرا اور تاریخی موقع ہے۔ اس عظیم دن کو خاموشی سے کیونکر گزارا جاسکتا ہے۔
تحریک آزادی میں امیر حمزہ شنواری، دوست محمد خان، کامل مہمند، علامہ عبدالعلی اخونزادہ، فضل اکبر احمد غازی، خان میر بلالی، محمد اسلم خان خٹک، عبدالحلیم، فضل اکبر بے غم، ارباب سکندرخان خلیل، ارباب خان ارباب، عبدالرزاق حکمت، میر احمد صوفی، قمر زمان راہی اور پیر گوہر وغیرہ وہ عظیم شخصیات بھی ہیں جنہوں نے سیاسی و فکری پلیٹ فارم میں بڑھ چڑھ کر حصہ لیا۔ حاجی صاحب ترنگزئی، عمرخان ایپ، عبدالغفور کاکاجی اور ملا نجم الدین المعروف اڈے ملا صاحب، میاں گل عبدالودود اور سرتور فقیر وغیرہ تحریک آزادی کے وہ مجاہدین تھے، جنہوں نے انگریزوں کو ناکوں چنے چبوائے۔ لیونے فلسفی ’غنی خان بابا‘ کی ان نظموں نے تو سارے پختونخوا میں دھوم مچادی تھی۔ پاکستان کا قیام صرف تقاریر سے عمل میں نہیں آیا تھا بلکہ اس کے لیے ہمارے آبا و اجداد نے انگریز سرکار کے خلاف مسلح مزاحمت کی، جانیں قربان کیں۔ پاکستان ہمیں پلیٹ میں رکھ کر نہیں دیا گیا کہ ہم اس کی ناشکری کریں۔ یہ خداوندتعالیٰ کی ایسی نعمت ہے جس کا جتنا شکر ادا کریں کم ہے۔ قائداعظم ؒ جہاں سیاسی محاذ پر انگریزوں کی غلامی سے نجات کے لیے اپنے پرایوں سے لڑنے اور مسلم قوم کو متحد کرنے کی تگ و دو کررہے تھے تو اس سے قبل ہی تحریک آزادی کا آغاز جنگ ’غدر‘ سے کردیا گیا تھا۔ دو قومی نظریے کی بنیاد ریاست مدینہ میں پڑی اور اس کو مشعل راہ بناتے ہوئے ’’اسباب بغاوت ہند‘‘ میں سرسید احمد خان نے یاد کرایا کہ مسلمانوں اور ہندوؤں (شدت پسند) میں کیا فرق ہے اور یہ دو جداگانہ قومیں (نظریاتی) کیوں ہیں۔
اقبالؒ نے مسلم ریاست کا خواب دیکھا تو اُس وقت منٹو پارک میں قرارداد لاہور پیش نہیں کی جارہی تھی، بلکہ علامہ کے فکری افکار آنے والے رخ کا تعین کررہے تھے۔ قائداعظمؒ کی راہ میں کئی رکاوٹیں اگر انتہا پسندہندوؤں نے کھڑی کیں تو اُن کے ساتھ ایسے مسلمان بھی تھے جو ہندوستان کی تقسیم پر اپنے تحفظات کا اظہارکررہے تھے۔ بلاشبہ ان میں مولانا فضل الرحمٰن، محمود خان اچکزئی اور اسفندیار ولی کے آبا بھی شامل تھے، لیکن آزادی کے بعد انہوں نے پاکستان کے وجود کو تسلیم کرلیا، محب وطن رہے اور جمہوریت کو مستحکم بنانے کے لیے اپنا مثبت کردار بھی ادا کیا۔ حریت پسند رہنماؤں کی قربانیوں اور جدوجہد کو آنے والی نسلوں سے پوشیدہ نہیں رکھا جاسکتا۔ نوجوان نسل کو بتانا ہوگا کہ خان عبدالغفار خان جنہیں 30برسوں سے زائد انگریزوں نے قید و بند کی صعوبتیں دیں، عبدالصمد اچکزئی کو 25برس انگریزوں نے جیل میں رکھا اور سید احمد شہید جیسے ان گنت اکابرین کی قیمتی قربانیاں کبھی فراموش نہیں کی جاسکتیں۔
پاکستان کے قیام کے بعد سے آج تک ہم سب پڑھتے اور پھر دیکھتے رہے ہیں کہ اغراض پاکستان کو پورا نہیں کیا گیا۔ ہمیں اپنے ایک اہم حصے مشرقی پاکستان سے بھی ہاتھ دھونا پڑا۔ مقبوضہ کشمیر میں مسلمانوں پر ہونے والے مظالم اور بھارتی جارح کی سازشوں کی وجہ سے کئی جنگیں بھی لڑنا پڑیں۔ کارگل، سیاچن جیسے محاذ پر فوجی جوانوں کی قیمتی قربانیوں کے ساتھ دنیا کے مہنگے ترین محاذ کا سامنا ہے۔ شمالی مغربی سرحدی علاقوں میں وطن دشمن عناصر کی سازشوں کی وجہ سے خیبر پختونخوا، بلوچستان اور سندھ کے عوام کو گمراہ کرنے کی کوشش کی جارہی ہے۔ قوم پرستی کا لبادہ اوڑھ کر ہماری لسانی اکائیوں کو پاکستان کے خلاف بغاوت کے لیے برین واش کرنے کی سازشیں کی جارہی ہیں۔ عالمی اسٹیبلشمنٹ کی سازشوں کو ناکام بنانے کے لیے سیکیورٹی ادارے ملی جذبے کے ساتھ اپنی جانوں کو قربان کررہے ہیں۔ ہم اپنے سیکیورٹی اداروں کی قربانیوں کو کیونکر نظرانداز کرسکتے ہیں۔ ہم ان کے لیے نفرتوں کو قطعی جگہ نہیں دے سکتے کیونکہ ملک دشمن عناصر کی اصل سازش یہی ہے کہ سیکیورٹی اداروں اور عوا م کے درمیان خلیج پیدا کردی جائے۔
ریاستی اداروں کی تعظیم سب پر یکساں لاگو ہے۔ ہمیں مدنظر رکھنا ہوگا کہ پاکستان میں اس وقت اکثریت ایسے نوجوانوں کی ہے جو پاکستان کی ظاہری حالت کو دیکھ رہے ہیں۔ اپنے آبا و اجداد کی قربانیوں سے ناواقف ہونے والوں کی تعداد زیادہ ہے۔ انہیں پاکستان کے قیام کی تاریخ و مقاصد سے ناآشنا کرانے کی کوشش کئی دہائیوں سے ہورہی ہے۔ اگر ملکی تاریخ سے روشناس کرانے کے بجائے ہمارے اکابرین جذباتی رویہ اپنائیں گے تو پھر اس کے منفی اثرات سے کوئی بھی محفوظ نہیں رہ سکے گا۔
مولانا فضل الرحمٰن، محمود خان اچکزئی اور اسفندیار ولی کی بھی ذمے داری بنتی ہے کہ وہ ’’جمہوری‘‘ نظام کا حصہ ہونے کی وجہ سے نوجوانوں میں ایسی کوئی خلیج پیدا نہ ہونے دیں، جس کے نتائج نقصان دہ ہوں۔ شمال مغربی سرحدی علاقوں میں قومیت کے نام پر ایک ایسی تحریک پروان چڑھ رہی ہے جو ناپختہ اذہان کو متاثر کرچکی ہے، بلکہ بڑے بڑے دانشور اور قوم پرست بھی اس کے اثرات سے محفوظ نہیں رہ سکے۔ پاکستان میں فرقہ وارانہ بنیادوں پر خانہ جنگی کرانے کی کئی مہلک کوششوں کو ناکام بنایا جاچکا ہے۔ اب ملک دشمن عناصر مسلکی بنیادوں پر مسلمانوں کو آپس میں باہم دست و گریباں کرانا چاہتے ہیں۔ ملک دشمن عناصر شدت پسند کے نزدیک کوئی لسانی اکائی یا مذہبی مسلک کو استثنیٰ نہیں دیا گیا۔ شدت پسند جب چاہتے ہیں، جسے چاہتے ہیں موقع ملتے ہی لسانی اکائی ہو،
یا کسی بھی مسلک کے پیروکار، سب کو دہشت گردی کا نشانہ بناتے ہیں۔ ان کے نزدیک کوئی خاص جماعت مقدس گائے نہیں، بلکہ جس عمل سے عوام میں ریاست کے خلاف عدم اعتماد و انارکی پیدا ہو، اُسے اپنانے میں ایک لمحہ تاخیر نہیں کرتے۔ بلوچستان کا بلوچ ہو، خیبر پختونخوا کا پختون یا پھر سندھ کا سندھی یا پنجاب کا باسی یا گلگت بلتستان کا شہری، شدت پسندوں کے نشانوں پر سب یکساں ہیں۔
جمہوری نظام میں بلاشبہ کئی خامیاں ہیں، اسی وجہ سے انتخابی عمل پاکستان میں کبھی شفاف نہیں رہا۔ انتخابی عمل کو شفاف اور ایسے ’’جمہوری‘‘ نظام کو کامیاب بنانے کے لیے ’’جمہوریت‘‘ کے دائرے میں رہ کر ہی جدوجہد کرنا ہوگی۔ ’’جمہوری‘‘ نظام سے اگر ایک عام آدمی کا اعتماد ختم ہوتا ہے تو یہی عوام ڈکٹیٹروں کی آمد پر مٹھائیاں بھی تقسیم کرتے ہیں اور فرد واحد کئی کئی برسوں تک بغیر کسی کو جواب دہ ہوئے من پسند اقدامات بھی کرتا رہتا ہے۔ آج اگر پاکستان کے عوام میں اتنا شعور آچکا ہے کہ ’بہترین آمریت سے بدترین جمہوریت کئی درجہ بہتر ہے‘ تو اس ’نام نہاد جمہوریت‘ سے بھی ان کا اعتماد نہ اٹھنے دیں۔ گروہوں، مسالک اور فرقہ بندیوں میں الجھا پاکستان کسی نئی مہم جوئی کا متحمل نہیں ہوسکتا، اس بات کو سمجھنے کی ضرورت ہے کہ ہم جشن آزادی ملی جوش و جذبے سے مناکر رب کائنات کا شکر ادا کریں گے، کفران نعمت سے اغراض برتیں گے، لیکن اپنی حدود میں رہتے ہوئے قیام پاکستان کے مقاصد کو حاصل کرنے کی کوشش بھی جاری رکھیں گے۔ ان شاء اللہ۔


شیئر کریں: