Chitral Times

Mar 28, 2024

ﺗﻔﺼﻴﻼﺕ

پاکستان اسانی سے نہیں بنا تھا۔……..تحریر عبدالقیوم

Posted on
شیئر کریں:

27 رمضان مبارک 1336 ہجری 14 اگست 1947 کو اللہ تبارک وتعالیٰ نے برصغیر کے مسلمانون کو ایک عظیم نعمت سے نوازا تھا ۔ وہی نعمت حیرت و اذادی کی نعمت تھی جو انسان کا پیدائشی حق ہے مسلمانوں کو ازادی کی نعمت کا احساس اُس وقت ہوا جب 1857 ؁ء مین انگریزوں نے پورے برصغیر پر قبضہ جمائے۔ اُس وقت ہندوں اور مسلمانوں نے ملکر انگریزوں کے خلاف ایک جنگ شروع کی جس کو جنگ ازادی کا نام دیا گیا ۔ اس جنگ کی عالم میں مسلمانوں میں سے ایک شخص سر سید احمد خان نے 1870 ؁ء میں علی گڑھ میں ایک مدرسہ قائم کیا ۔یہ مدرسہ 1875 ؁ء میں کالج میں تبدیل ہوا ۔ اُس زمانے میں سرسید احمد خان نے ایک اہم پیغام بھی دیاتھا ۔ کہ دین چھوڑنے سے دنیا نہیں جاتی مگر دینا چھوڑنے سے دین بھی چلا جاتا ہے۔ اس کا مطلب یہ تھا کہ غلامی میں ازادی سے دین پر عمل نہیں کیا جاسکتا کیونکہ غلامی میں اقا کے حکم پر چلنا ہوتا ہے ۔ مسلمانوں میں سے جمال ا لدین افغانی نے بھی ایک اہم جملہ کہا تھا ۔ کہ دراصل مغرب کی مشرق پر حکمرانی علم کی جہالت پر حکمرانی ہے۔ ایک اور اہم عالمی شخصیت سر سلطان محمد شاہ اغاخان سوئم نے 1896 ؁ء میں علی گڑہ میں تشریف لاکر ایک خطبہ میں فرمایا تھا ل۔ کہ مسلمان جدید علوم سے ناواقف ہیں اس وجہ سے وہ مصیبت کا شکار ہوگئے ۔ مسلمان رہنماوں کی پندونصحیتو ں سے برصغیر کے باشندوں کے اندار ایک بیداری پیدا ہوئی ۔ اور ایک سیاسی پارٹی کانگرس کے نام سے وجود میں ائی مگر مسلمان اس پارٹی سے مطمین نہیں تھے۔ اس لئے 1906 ؁ء میں مسلم لیگ کی بناد ڈالی گی اس کا دفتر علی گڑھ میں قائم کیا گیا ۔ سرسلطان محمد شاہ اُس کا صدر منتخب ہوا اور نواب محسن الملک اُس کا سیکرٹری مقرر ہوا ۔ اُسی سال ہی سرسلطان محمد شاہ یکم اکتوبر 1906 ؁ء کو وندکی قیادت کرکے شملہ میں واسرائیے ہند لارڈ منٹو کو مسلمانوں کی جانب سے ایک یا د داشت پیش کی اُس وفد میں 37 مسلم افراد تھے ۔ 1911 ؁ء میں سر سلطان محمد شاہ3 مہنے تک علی گرھ کالج یو نیورسٹی کے لئے چندہ جمع کرنے کی مہم میں ریل کا سفر کرتے رہے 24فروری 1911 کی پیسہ اخباراس واقعہ کو یوں لکھتا ہے کہ سر اغاخان آج شہر لاہور میں رونق افروز ہے اس طرح کہ ان کے ہاتھ میں کاسہ گدائی ہے تاکہ مسلم یونیورسٹی کے لیے چندہ جمع کریں جس سے رسولؑ کی امت کے لوگ فائدہ اٹھا سکیں۔ اخبار یہ بھی لکھتا ہے کہ کس سے ہوسکتا ہے کہ ایون شاہی سے نکل کر گھر گھر بھیک مانگتا پھریے۔ آپ نے تین مہنے کے اندر 20 لاکھ رورپے جمع کرلی اور یوینورسٹی کا چارٹر بنا کر حکومت برطانیہ سے منوانے کے لئے انگلستان چلے گے۔ 1920 میں علی گڑھ ینورسٹی کا قیام ہوا ۔ آپ 1938 تک اس کا پرو وائس چانسلیر رہے۔ 1946 میں آپ یوینورسٹی میں اکر نوجونون کو یہ پیعام بھی دیا جوہری توانائی کے ذریعے دوسرے سیاورہ تک کی رسائی ہوسکتی ہے۔ مسلمان جو ماضی میں سا ئنس میں سب سے اگے تھے وہی سب سے پیچھے ہیں ۔ سرسلطان ساہ 3 فروری 1954 کو کراچی میں اپنے پلاٹینم جوبلی کی تقریب میں لاکھوں سامعیں کے سامنے فرمایا مجھے خوشی اور فخر ہے کہ میں کراچی میں پیدا ہو تھا ۔ یہ وہی شہر ہے جس کو یہ اعزاز حاصل ہے کہ اس شہر میں بابائے قوم پیدا ہوئے تھے۔ قائد عظم محمد علی جناح اور اُس کے درمیان جو بات چید ہوئی تھی آپ نے اُس کا بھی حوالہ دیا ۔
Before his death he had asked me to take up the general direction and supervision of Paksitan Representation in Europe and America .
اُسی تقریب میں سر سلطان محمد شاہ نے پاکستان کے شہرریوں کو مخاطب کر کے فرمایا۔ you must entire loyalty and devotion to welfare and service of that country you have honour to being citizen of pakistan.
مسلم رہنماوں کی ابتدائی کاویشین قیام پاکستان کی بنیاد کیلئے سریاسیمنٹ کے کام دئے جن پر بعد میں علامہ ڈاکڑ محمد اقبال اور قائداعظم محمد علی جناح نے اپنے علم و قلم اور عقیلی دلیلون کے ذریعے دیواریں کھڑی کر کے پاکستان تعمیر کی ۔ 1930 ؁ء میں پہلا دلیل علامہ ڈاکٹر محمد اقبال الا اباد میں مسلم لیگ کے سالانہ اجلاس میں دوقومی نظریہ کی صورت میں پیش کیا ۔ اور فرمایا ہندو اور مسلمان دو الگ الگ قومیں ہیں لہذا مسلماں اکثریتی علاقوں کو ملاکر ایک مسلمان ریاست قائم کی جائے ۔ دوسرا دلیل کیمرج یونیورسٹی کے مسلمان طلبہ نے ایک پمفلٹ اس ۔۔۔۔ Now or Never کے نام سے جاری کرکے ایک مسلمان ریاست کے قیام کا مطالبہ کیا اور اُس پمفلٹ میں پہلی دفعہ لفظ پاکستان استعمال ہوا ۔ تیسرا عقلی دلیل 22 مارچ 1940 ؁ء کو لاہور منٹو پارک جو موجودہ علامہ اقبال پارک میں قائداعظم محمد علی جناح نے ایک بڑے اجتماع سے خطاب کرتے ہوئے پیش کیا ۔ کہ ہندوستان کا مسلہ فرقہ ورانہ نوعیت کا نہیں بلکہ بن الاقوامی نوعیت کا ہے۔ مسلمان لفظ قوم کی تشریح پر پورا اُترتی ہیں۔ اور اُن کا حق ہے کہ اِن کا اپنا وطن ہو اپنا علاقہ ہو اور اپنی ریاست ہو۔
علامہ اقبال اور قائد اعظم کی مضبوط دلیلوں سے جب پاکستان کا واضح نقشہ سامنے آیاتو 11 اگست 1947 ؁ء کو پاکستان کی دستور ساز اسمبلی سے خطاب کرتے ہوئے بابائے قوم نے واضح الفاظ میں فرمایا ۔ اگر تم مل جل کر کام کرو اور ماضی کو بھلا دو اور پرانے جھگڑے دفن کردو تو کامیابی تمہارا مقدار ہوگا۔ تم کسی بھی مذہب ،کسی بھی قبلیے اور قوم سے تعلق رکھتے ہو اُس کا ریاست کے کاروبار سے کوئی تعلق نہیں۔ قائد اعظم کے نزدیک سب سے اہم بات یہ ہے کہ ہم اس ملک کے ایک بہترین شہری ہون کیونکہ یہ پاکستان ہماری شناخت ہے۔


شیئر کریں: