Chitral Times

Apr 19, 2024

ﺗﻔﺼﻴﻼﺕ

“ترش و شیرین “…… علم سے محروم بچے امداد کے منتظر ہیں “…..نثار احمد

شیئر کریں:

کیا فی الواقع چراغ تلے اندھیرا ہی ہوتا ہے؟ کیا گھر کی مرغی کا ذائقہ دال برابر بھی نہیں ہوتا ؟
انسان کی دیکھنے والی آنکھ اگر تیز طرار اور فعال ہو تو معاشرے میں چُھپے ہوئے ایسے خدا ترس اور انسانیت دوست بندوں کو ضرور ڈھونڈ نکال لاتی ہے جن کے پاس بیٹھنے، انہیں سننے اور دیکھنے سے اِن دونوں محاوروں کی صداقت کا کامل یقین ہو جاتا ہے.
گزشتہ دنوں محافظ بیت الاطفال کے سربراہ مولانا عماد سے ملاقات کے بعد میرا ایمان اس بات پر بھی مزید پختہ ہو گیا کہ حقیقی معنوں میں سارے جہاں کا درد رکھنے والے افراد اب بھی اِسی رُوئے زمین پر پائے جاتے ہیں جس کے غالب باسیوں کی خود غرضی، دھوکہ دہی، منافقت اور مفاد پرستی کے مَظاہر در در عیاں اور کوچہ کوچہ نمایاں ہیں.
مولانا عماد بنیادی طور پر ایک سکول ٹیچر ہیں . اسکیل سولہ (BPS 16) میں ہونے کے ناتے ہر ماہ کی تیس تاریخ کو تنخواہ کے نام پر اِتنے پیسے اِن کے ہاتھ میں ضرور آتے ہیں کہ دائیں بائیں دیکھے بغیر بآسانی اپنے بال بچوں کا پیٹ پال سکیں. سکول کی مختصر ڈیوٹی کی انجام دہی کے بعد یہ بھی دوسرے بہت سارے لوگوں کی طرح اضافی بکھیڑوں اور پَرائی پریشانیوں میں پڑے بغیر کسی حد تک نارمل اور پرسکون زندگی گزار سکتے ہیں لیکن اپنی آسائش و راحت کی پروا کئے بغیر قوم کے پھول جیسے ضرورت مند بچوں کی مناسب تعلیم و تربیت کے لئے مسائل کا ٹوکرا سر پہ لادے گھومنا عماد جیسے باہمت لوگوں کے حصے میں ہی آتا ہے. ہر سُو پنجے گاڑھے تاریکی کے اس پُرآشوب دور میں ایسے لوگ امید کے ٹمٹماتے چراغ ہیں.. ایسے لوگوں کی قدردانی بھی ہونی چاہیے اور ہمت افزائی بھی.. قوم کے معصوم بچوں کے لیے عماد صاحب کی بے لوث قربانی کا اندازہ اس بات سے بھی لگایا جا سکتا ہے کہ دنین جیسے مہنگے علاقے میں اِنہوں نے ایک چکورم زمین محافظ بیت الاطفال کے لیے وقف کر رکھی ہے. دنین میں ایک چکورم زمین کی درست قیمت اِس وقت مجھے معلوم تو نہیں. تاہم اتنی بات سبھی جانتے ہیں کہ دنین سمیت ٹاؤن کے دوسرے علاقوں میں ایک چکورم کی قیمت ایک کڑوڑ سے اوپر ہے، نیچے ہر گز نہیں ..
چترال کے مختلف علاقوں سے تعلق رکھنے والے چھوٹے چھوٹے بچوں کے لئے محافظ بیت الاطفال ایک بڑے گھر کی مانند ہے. جہاں اِن بچوں کی تمام بنیادی ضروریات کا اعلی درجے میں خیال رکھا جاتا ہے. اِس ادارے میں اقامت پذیر بچوں میں زیادہ تر ایسے ہیں جو آغاز طفولیت میں ہی سایہءپدری سے محروم ہو چکے ہیں . باپ جیسے گھنے چھاؤں والے درخت کا سایہ سر پہ موجود نہ ہو تو پھر ایسا بچہ شش جہت سے زمانے کی بدخواہ نظروں کے نرغے میں ہوتا ہے. زندگی نامی عذاب کے مسائل سے نبرد آزما ہونے کے لئے ایسے بچوں کو وسائلِ حیات کی فراہمی جہاں ایک طرف عبادت کے زمرے میں آتی ہے وہاں دوسری طرف یہ انسانیت کے ساتھ سچی ہمدردی بھی ہے ..ادارہ محافظ بیت الاطفال کا احیاء اسی مبارک مقصد کے لئے کیا گیا ہے.
اگرچہ اس ادارے سے استفادہ کرنے والے ضرورت مند خاندان ضلع بھر سے ایک سو پچاس کے لگ بھگ ہیں تاہم ادارے میں کل وقتی موجود یتیم بچوں کی تعداد بائیس ہے. ان بچوں کی سکول فیس، ٹرانسپورٹ فیس، ایڈمیشن فیس سے لے کر یونیفارم تک کے تمام اخراجات ادارہ ء ہذا پوری دلچسپی و زمہ داری سے پورا کرتا ہے.
یہ ہاسٹل کا کمرہ ہے . اس میں حال ہی میں بریر ویلی سے یہاں لائے گئے دو بچے لیٹے ہوئے ہیں .. عمر بمشکل پانچ چھ سال… جاگنے والا بچہ میرے ایک سوال پر شرماتے ہوئے گویا ہوتا ہے کہ یہاں بہت اچھا ہے. ہمیں کیلے بھی کھانے کو ملتے ہیں..
جبکہ تھوڑی دیر میں دوسرا بچہ روتا ہوا جاگتا ہے.. اور پوری اپنائیت کے ساتھ بتاتا ہے کہ میرے پیٹ میں درد ہو رہا ہے.. گویا کہ وہ کسی اور کو نہیں اپنے ہی والد کو اپنا حالِ دل سنا رہا ہے.. پھر اُسے ڈاکٹر کے پاس لے جایا جاتا ہے…
بارہ سالہ ذاکر اللہ چوئنج سے، تیرہ سالہ سمیع الدین کھوت سے، دس سالہ عبید الرحمن گرم چشمہ اور دس سالہ سمیع بمبوریت سے اس ادارے میں مقیم ہو کر اپنے علم کی پیاس بجھا رہے ہیں. اس ادارے میں کسی بھی مذہبی و علاقائی امتیاز و تفریق کے بغیر بچوں کو لایا، پالا اور علم سے بہرہ ور کیا جاتا ہے.
ایک کیلاش بچہ بھی کسی بھی نوع کی اجنبیت کا احساس پالے بغیر پورے شوق و ذوق اور اطمینان کے ساتھ یہاں مسلمان بچوں کے ساتھ رہ رہا ہے..
ادارے کی ضروریات و اخراجات پر بات کرتے ہوئے ادارے کے سربراہ مولانا عماد کا کہنا تھا
“اِس وقت ہم رینٹ کی بلڈنگ میں رہ رہے ہیں جس کا ماہانہ کرایہ بیس ہزار ہے.. جبکہ نئی عمارت کے لئے میں نے اپنی زمین وقف کر رکھی اُس کی تعمیر اِس وقت ہمارا اولین ٹارگٹ ہے ”

بہرکیف. سایہء پدری سے محروم ایسے مخصوص بچوں اور بچیوں کی سماجی، معاشرتی اور اخلاقی تربیت کے ساتھ اُنہیں معیاری تعلیم کی فراہمی ہم سب کا دینی و انسانی فریضہ ہے. معاشرے کے سُدھار میں اپنا حصہ ڈالے بغیر صرف بگاڑ کو لے کر شکوہ کناں رہنا مسئلے کا حل ہرگز نہیں ہے. وقتی تماشہ ضرور ہے.
چترال کی سطح پر محتاج بچوں کی تعلیم و تربیت کے لئے قائم شدہ اس ادارے کے ساتھ مقدور بھر عملی، مالی اور قلمی تعاون کر کے معاشرے سے جہالت و غربت کی بیخ کنی میں ہم اپنا کردار ادا کر سکتے ہیں.
آئیے “اولڈ ایس بی بی یو کیمپس” دنین چترال کے قریب واقع اس ادارے میں جاکر بچوں کے ساتھ اظہار ِ ہمدردی بھی کرتے ہیں اور اُن کی حوصلہ افزائی بھی…
اللہ تبارک و تعالیٰ ہمیں کار ِ خیر میں تعاون کی توفیق عطا فرمائے..
ادارے کا اکاؤنٹ نمبر
PK05MUCB 0531417551000178
Title:Muhafiz Welfare Organization
Ph:0943 414191


شیئر کریں:
Posted in تازہ ترین, مضامینTagged
12622