Chitral Times

Mar 28, 2024

ﺗﻔﺼﻴﻼﺕ

خاک میں کیا صورتیں ہوں گی جو پنہاں ہوگئیں……… محمد شریف شکیب

Posted on
شیئر کریں:

سوشل میڈیا پر ایک سکول ٹیچر کا خط نظر سے گذرا۔ خط کا ہر ہر لفظ ہیرے موتیوں سے لکھنے کے قابل ہے۔ والدین کے نام اپنے خط میں سکول ٹیچر لکھتے ہیں’’ کہ آپ کے بچوں کے امتحانات شروع ہونے والے ہیں۔ اساتذہ کی طرح آپ بھی بچوں کے امتحانات کے حوالے سے فکر مند ہوں گے۔ یہ بات اچھی طرح ذہن نشین کرلیں۔ کہ ان بچوں میں سے کوئی عملی زندگی میں آرٹسٹ بن کر نام کمائے گا۔ اگر ریاضی کے پرچے میں نمبر کم آگئے تو اس کے کیرئر پر کوئی فرق نہیں پڑے گا۔کسی بچے کی قسمت میں کاروباری ادارے کا چیف ایگزیکٹو بننا ہے تو اردو یا انگریزی ادب میں کم نمبر آنے سے اس کا مستقبل متاثر نہیں ہوسکتا۔ انہی بچوں میں سے کسی نے عالمی شہرت یافتہ موسیقار بننا ہے۔ اگر اس نے کیمسٹری میں کم نمبر لئے تو اس کے کیرئرپر کوئی فرق نہیں پڑنے والا۔کسی نے ایتھلیٹ بننا ہے تو اس کے لئے جسمانی طور پر تندرست ہونا ضروری ہے فیزکس میں زیادہ نمبر لینا ضروری نہیں۔ اگر آپ کا بچہ زیادہ نمبر لیتا ہے تو بہت اچھی بات ہے۔ لیکن اگر نمبر آپ کی توقعات سے کم آتے ہیں تو براہ کرم چند نمبروں کے لئے ان کے خود اعتمادی کا خون مت کریں۔ اس کے عزت نفس کو خاک میں نہ ملائیں۔ ان سے کہہ دیں کہ نمبروں کی کمی بیشی کوئی معنی نہیں رکھتی۔ زندگی میں انہیں اس سے کہیں بڑے امتحانوں سے گذرنا ہے۔ یہ چھوٹا سا امتحان اس کی تیاری کا حصہ ہے۔ اگر آپ نے اپنے بچے کا حوصلہ بڑھادیا تو وہ دنیا فتح کرسکتا ہے۔ امتحان میں کم نمبر اس کے خوابوں کی تعبیر میں رکاوٹ نہیں بن سکتے۔ یہ بات ہمیشہ ذہن میں رکھیں کہ دنیا میں صرف ڈاکٹر اور انجینئر ہی سب سے زیادہ خوش او ر مطمئن لوگ نہیں ہیں‘‘اس تمہید کا مقصد چترال میں گذشتہ ایک ہفتے کے اندر چار نوجوانوں کی خود کشی کی وجوہات کا تجزیہ کرنا ہے۔ انٹرمیڈیٹ کے امتحان میں توقع سے کم نمبر ملنے ، والدین یا رشتہ داروں کی سرزنش اور طعنوں سے دل برداشتہ ہوکر کھوت کے جوانسال فرید احمد، ریچ تورکہو کی صالحہ، موغ گرم چشمہ کی صفورہ بی بی اورشیر شال کریم آباد کے ربی الدین نے اپنے ہی ہاتھوں اپنی زندگی کا چراغ گل کردیا۔ اسی رجحان کے زیر زیر اثر بونی ڈوک کے الطاف نے کوشٹ پل سے دریا میں چھلانگ لگا کر موت کو گلے لگا لیا۔گذشتہ دو تین سالوں کے دوران ضلع چترال میں پچاس سے زیادہ افراد خود کشی کا ارتکاب کرچکے ہیں جن میں ننانوے فیصد سولہ سے بیس سال کی عمر کے نوجوان لڑکے اور لڑکیاں شامل ہیں۔ کوئی امتحان میں فیل ہونے یا کم نمبر آنے پر خود کشی کا ارتکاب کرتا ہے۔ کوئی پسند کی شادی نہ ہونے، والدین کی نصیحت کا برا منا کر اور رشتہ داروں کے لعن طعن سے دلبرداشتہ ہوکر یہ انتہائی اقدام اٹھاتے ہیں۔صورتحال کا تشویش ناک پہلو یہ ہے کہ خودکشی کے بڑھتے ہوئے واقعات نوجوانوں میں عدم برداشت کے رجحات کی نشاندہی کرتے ہیں۔اس کی بہت سی وجوہات ہیں تاہم سب سے اہم وجوہات میں والدین کی طرف سے بچوں کی تربیت میں کوتاہی، موبائل فون کا حد سے زیادہ استعمال اور تعلیمی اداروں میں بچوں کی اخلاقی تربیت سے غفلت شامل ہیں۔ زندگی اللہ تعالیٰ کی عطا کی گئی عظیم نعمت ہے۔ اور انسان کے پاس یہ نعمت اللہ کی امانت ہے۔ اس امانت کو ضائع کرنا کفران نعمت ہے اسی وجہ سے اسلام نے خود کشی کو حرام قرار دیا ہے۔ احترام انسانیت اسلام کا اہم ترین سبق ہے۔ بدقسمتی سے ہمارے سکولوں، کالجوں، یونیورسٹیوں ، مدارس اور مسجد و منبر سے اس کا درس دینے کی ضرورت بہت کم محسوس کی جارہی ہے۔جس انسان کی نظر میں اپنی جان اور زندگی کی کوئی قدروقیمت نہ ہو۔ اس سے دوسروں کی جان و مال کے تحفظ کی توقع بھی نہیں رکھی جاسکتی ۔جو زندگیاں جذبات کی رو میں بہہ کر ضائع کی جارہی ہیں۔ انہیں بچایا جائے تو انہی میں سے بڑے بڑے ڈاکٹر، انجینئر، سیاست دان، مصور، پائلٹ، استاد اور صحافی بن سکتے ہیں۔ نوجوان نہ صرف معماران قوم ہیں بلکہ ملک کا مستقبل انہی سے وابستہ ہے۔ ان کی اچھی تعلیم، بہترین تربیت اور کردار سازی والدین، اساتذہ، معاشرے کے نمائندہ افراد ، دینی اداروں اور شخصیات کی مشترکہ ذمہ داری ہے۔ہم نے بہت سے لعل و گہر گنوادیئے ہیں۔ اب مزید غفلت اور کوتاہی کی گنجائش نہیں ہے۔اب ہنگامی بنیادوں پر اس سنگین مسئلے کا حل تلاش کرنے کے لئے سرجوڑ کر بیٹھنے کی ضرورت ہے۔


شیئر کریں: