Chitral Times

Mar 28, 2024

ﺗﻔﺼﻴﻼﺕ

خودکشی حرام ہے ………………… اشرو ملنگ

Posted on
شیئر کریں:

خودکشی حرام ہے دنیا سے منہ موڑنا جائز نہیں ہے۔ زندگی سے قیمتی دنیا میں کوئی چیز نہیں ہے۔ دنیا کے تیور سمجھتے ہوئے ہر ذی شعور کو دنیا سے چمٹتے ہوئے رہنا چاہئے۔ ہمارے معاشرے میں بزرگوں سے ہمیشہ سننے کو ملتا ہے کہ دنیا کچھہ بھی نہیں ہے اس سے کنارہ کشی کرنے میں ہی بھلائی ہے۔ میں کہتا ہوں کہ یہ بالکل مہمل بات ہے کونکہ دنیا سب سے قیمتی چیز ہے۔ اگر آپ کو ایک روپے کے عوض کروڑ روپے ملتے ہوں، اگر ایک قطرے کے بدلے دریا ملنے والا ہو، اگر ایک ذرے کے صلے میں کائنات ملنے والا ہو تو وہ ایک روپیہ وہ ایک قطرہ اور وہ ایک ذرہ حقیر نہیں ہوگا بلکہ بہت اہمیت کے حامل ہوگا۔ یہی ایک روپیہ یہی قطرہ یہی ذرہ یہ دنیا ہی ہے اس کے بدلے ہمیں کروڑ روپے، دریا، کائنات یعنی جنتِ فردوس ملنے والا ہے۔ جب ہم کسی مقابلے کا حصہ ہی نہیں بنیں گے تو حساب میں کیسے آئیں گے۔ یہ دنیا ایک پُل کی مانند ہے جس سے ہمیں ہر حال میں گزرنا ہے۔ یہ ہماری تقدیر بھی ہے۔ جب ہم اپنی قسمت سے منہ موڑین گے تو بد بختی کے دریا میں ڈوب مریں گے۔ ہم ایسے قوم ہیں جو کھیل کا حصہ بھی نہیں ہیں اور جیت کی توقع بھی رکھے ہوئے ہوتے ہیں۔ یہ دنیا ایک کھیل ہے یہ ایک تماشا ہے ہمیں بھی کھلینا چاہئے تماشا دیکھنا چاہئے۔ آگے نکلنے اور کچھ کرنے کا نام ہی زندگی ہے۔ جب ہم ہار جائیں تو یہ بھی کھیل کا حصہ ہے ہمیں بے دل نہیں ہونا چاہئے۔ اگر آپ مسلسل سعی و کوشش کے باوجود کسی منزل میں پہنچنے میں ناکام ہیں تو یہ بات یاد رکھیں کہ اس سے بہت آگے کوئی منزل کوئی بڑا مقام آپ کا منتظر ہے۔ یہ بات میں وثوق سے کہتا ہوں یہ میرے دل کی پکار ہے۔ پاکستان کی حسین ترین سر زمیں چترال میں لوگ اپنی دیانت، سچائی، خوش اخلاقی اور اپنی مثبت سوچ کی وجہ سے پورے خطے میں پسند کئے جاتے ہیں۔ ہم نے کبھی نہیں سنا تھا کہ چترال کی اس سر زمیں میں کسی نے قتل کیا ہے، کہ چترال میں کسی نے خودکشی کیا ہے، کہ چترال کے اندر کسی نے غبن کیا ہے، سیاست کے نام پہ مذہب اور قومیت کو استعمال کیا ہے اور نہ جگھڑا و فساد کا ہم نے کہیں سنا ہے۔ لیکن افسوس صد افسوس ان چند سالوں میں بہت کچھ سننے کو ملتا ہے۔ کونسی برائی ہے جو ہم میں نہیں ہے۔ کیا اس کی وجہ سائنسی ترقی تو نہیں ہے؟ کیا اس کی وجہ نادانی تو نہیں ہے؟ کیا اس کی وجہ مذہب سے دوری تو نہیں ہے؟ کیا اس کی وجہ معاشرے میں پھیلی ہوئی نفرت تو نہیں ہے؟ کیا اس کی وجہ جو سطحی تعلیم ہمیں دی جا رہی ہے یہ تو نہیں ہے؟ کیا اس کی وجہ غربت تو نہیں ہے؟ کیا اس کی وجہ ہماری غیرت مند روایات تو نہیں ہیں؟ جو بھی ہے یہ ہماری معاشرے کی ناکامی ہے یہ ہماری ناکامی ہے یہ ہر فرد کی ناکامی ہے جو اس بستی میں مقیم ہے۔ اس کی روک تھام کے لئے ہر فرد کو کردار ادا کرنا چاہئے۔ حکمرانوں کو کردار ادا کرنے کی ضرورت ہے۔ علماء دین کو کچھ کرنے کی ضرورت ہے۔ جو ادارے چترال کے اندر کام کرتے ہیں ان سب کو کردار ادا کرنے کی ضرورت ہے۔ اگر ہم ہاہم مل کے معاشرے کی بھلائی کے لئے کام کریں گے تو ہم چترال کی مسخ شدہ چہرے میں دوبارا رونق لا سکتے ہیں۔ ہم میں محبت و یگانگت کا وہ جذبہ دوبارہ پیدا ہو سکتا ہے۔ یہ واپس جنت بن سکتا ہے۔ افراد کے ہاتھوں میں ہے اقوام کی تقدیر
ہر فرد ہے ملت کے مقدر کا ستارہ


شیئر کریں: