Chitral Times

Apr 20, 2024

ﺗﻔﺼﻴﻼﺕ

ملاکنڈ کو وزارت اعلیٰ مبارک ……………محمد شریف شکیب

Posted on
شیئر کریں:

صوبے کی اکہتر سالہ سیاسی تاریخ میں پہلی بار ملاکنڈ ڈویژن کو خیبر پختونخوا کی وزارت اعلیٰ کی نشست مل گئی ہے۔ حالیہ انتخابات میں خیبر پختونخوا اسمبلی کے حلقہ پی کے 9 سوات سے منتخب ہونے والے 46سالہ محمود خان کو پاکستان تحریک انصاف کی قیادت نے صوبے کے وزیراعلیٰ کے منصب کے لئے چن لیاہے۔ وہ یوم آزادی سے قبل صوبے کے 17ویں وزیراعلیٰ کی حیثیت سے اپنے عہدے کا حلف اٹھائیں گے۔ان سے قبل صوبے پر حکمرانی کرنے والوں میں سے چار کا تعلق ڈیرہ ڈویژن، دو کا چارسدہ، دو کا مردان، دو کا نوشہرہ ، دو کا پشاور اور چار وزرائے اعلیٰ کا تعلق ہزارہ سے رہا ہے۔ سوات، شانگلہ، بونیر، چترال، اپر دیر، لوئر دیر اور ملاکنڈ کے سات اضلاع پر مشتمل ملاکنڈ ڈویژن کے حصے میں اس مرتبہ پہلی بار یہ اعزاز آیا ہے۔محمود خان جمہوریت کی نرسری یعنی بلدیاتی سسٹم سے صوبے اور ملکی سیاست کے اعلیٰ منصب پر پہنچنے والے صوبے کے پہلے وزیراعلیٰ ہیں۔ زرعی یونیورسٹی پشاورسے زراعت میں ایم ایس سی کی ڈگری حاصل کرنے والے محمود خان نے عملی سیاست کا آغاز بلدیات سے کیا۔ وہ خریڑی یونین کونسل مٹہ کے ناظم رہ چکے ہیں۔ 2010میں تحریک انصاف میں شمولیت اختیار کی۔2013کے انتخابات میں پی ٹی آئی کے ٹکٹ پر کامیاب ہوئے۔ صوبائی کابینہ میں کھیل، سیاحت، ثقافت ، آبپاشی ، داخلہ ، قبائلی امور اور آثار قدیمہ کے وزیر رہے۔ انہیں سرکاری محکموں میں خامیوں اور کوتاہیوں کا بخوبی علم ہے۔ پانچ سالہ حکومت کے دوران پارٹی کی ترجیحات بھی انہیں معلوم ہیں۔ تاہم وزارت اعلیٰ کا منصب ان کے لئے پھولوں کی سیج نہیں ، بلکہ کانٹوں بھر ا بستر ہوگا۔ انہیں متعدد چیلنجوں کا مقابلہ کرنا ہوگا۔ قبائلی علاقوں کی خیبر پختونخوا میں شمولیت کے بعد اگلے سال اکیس نئے ممبران بھی اسمبلی میں آئیں اور صوبائی اسمبلی کے ارکان کی تعداد 124سے بڑھ کر145ہوجائے گی۔ ان تمام ممبران کو یکجا رکھنااور ناراض اپوزیشن کو ساتھ ملاکر چلنا بھی ان کے لئے بڑا امتحان ہے۔بی آر ٹی ، بلین ٹری سونامی اور شعبہ جاتی اصلاحات کا عمل بھی پایہ تکمیل تک پہنچانا ہوگا۔صوبے کی معیشت کو بہتر بنانا نئے وزیراعلیٰ کی صلاحیتوں کے لئے بھی ایک چیلنج ہے۔ پی ٹی آئی کی نومنتخب صوبائی حکومت کو خود انحصاری پر اپنی توجہ مرکوز کرنی ہوگی اور صوبے کے اپنے وسائل کو فروغ دینا ہوگا تاکہ وفاقی حکومت اور مالیاتی اداروں پر انحصار کو کم کیا جاسکے۔اللہ تعالیٰ نے اس صوبے کو آبی اور معدنی ذخائر اور قدرتی حسن سے نہایت فیاضی سے نوازا ہے۔ لیکن ان وسائل کو صوبے کی مجموعی ترقی کے لئے بروئے کار لانے پر کسی حکومت نے توجہ نہیں دی۔ کالام، بحرین، ملم جبہ، سیدو شریف ، مرغزار، بونیر، لوئر دیر، اپر دیر، چترال، ایبٹ آباد، مانسہرہ، بٹگرام، شانگلہ، اورکوہستان کے علاوہ جنوبی اضلاع اور قبائلی علاقوں میں قدرتی حسن سے مالامال سینکڑوں مقامات ہیں۔ وہاں سیاحوں کو مناسب سہولیات فراہم کی جائیں تو صرف سیاحت سے اتنی آمدنی ہوسکتی ہے جس سے ہمارے صوبے کی معاشی ضروریات پوری ہوسکتی ہیں۔ سیاحت کے علاوہ معدنی ذخائر سے خیبر پختونخوا کے بالائی اور قبائلی علاقوں کے پہاڑ بھرے پڑے ہیں ان میں سونا بھی ہے۔ زمرد، یاقوت، نیلم، اینٹی منی، شیلائٹ، سنگ مرمر اور مختلف اقسام کی دھاتوں کے بڑے ذخائر موجودہیں۔ ان معدنی ذخائر سے استفادہ کیا گیا تو پورے ملک کی معیشت ٹیک آف کی پوزیشن میں آسکتی ہے۔دریائے کنہار، دریائے سندھ، دریائے سوات، دریائے پنجکوڑہ اور دریائے چترال میں دو سو سے زیادہ ایسے مقامات کی پہلے ہی نشاندہی ہوچکی ہے جہاں ڈیم بنائے بغیر بھی بیس پچیس ہزار میگاواٹ بجلی پیدا کی جاسکتی ہے۔ جو پورے ملک کی ضروریات کے لئے کافی ہے۔ ملاکنڈ ڈویژن میں ان ترقیاتی منصوبوں سے علاقے کی محرومیوں کا بھی ازالہ ہوگا، غربت کی شرح کم ہوگئی۔ لاکھوں افراد کو روزگار کے مواقع ملیں گے اور صوبے کی معیشت کو بھی مہمیز ملے گی۔ توقع ہے کہ ملاکنڈ ڈویژن کے منتخب وزیر اعلیٰ اپنی مٹی کا قرض چکانے کے ساتھ صوبے کی ترقی کے لئے اپنی صلاحتیں پوری طرح بروئے کار لائیں گے۔ ان کی خوش قسمتی ہے کہ مرکز میں بھی تحریک انصاف کی حکومت بننے جارہی ہے۔اپنے صوبے کو ترقی کی راہ پر گامزن کرنے کے لئے انہیں وفاقی حکومت کی بھرپور تائید و حمایت حاصل رہے گی۔توقع کی جاسکتی ہے کہ محمود خان کی حکومت اس پسماندہ صوبے کو ترقی کی منزل سے ہمکنار کرنے میں کوئی دقیقہ فروگذاشت نہیں کرے گی۔


شیئر کریں:
Posted in تازہ ترین, مضامینTagged
12582