Chitral Times

Mar 29, 2024

ﺗﻔﺼﻴﻼﺕ

اضافی بجلی کا اچار ڈالیں…… محمد شریف شکیب

Posted on
شیئر کریں:

گرمی کی شدت میں اضافے کے ساتھ بجلی کی آنکھ مچولی بھی شروع ہوگئی۔ ملک میں بجلی کی طلب 23ہزار 500میگاواٹ تک پہنچ گئی جبکہ پیداوار 19ہزار میگاواٹ رہ گئی۔ جس کی وجہ سے بجلی تقسیم کرنے والی کمپنیوں نے لوڈ شیڈنگ کا جو نیا شیڈول جاری کیا ہے اس کے مطابق کراچی سے خیبر تک روزانہ دس سے چودہ گھنٹے کی لوڈ شیڈنگ کی جارہی ہے۔ جبکہ دیہی علاقوں میں بارہ سے اٹھارہ گھنٹے بجلی غائب رہتی ہے۔ واپڈا کے مطابق گرمی اور حبس بڑھنے سے بجلی کا ترسیلی نظام بیٹھ گیا ہے۔کیونکہ موجودہ نظام ساڑھے سولہ ہزار میگاواٹ سے زیادہ بوجھ برداشت نہیں کرسکتا۔ واپڈا حکام نے یہ بھی انکشاف کیا ہے کہ بجلی کی طلب پیداوار سے زیادہ ہو۔ یا پیداوار طلب سے زیادہ ہو۔ دونوں صورتوں میں لوڈ شیڈنگ کرنی پڑتی ہے۔سابق حکومت نے 27ہزار میگاواٹ بجلی پیدا کرنے اور لوڈ شیڈنگ مکمل طور پر ختم کرنے کا دعویٰ کیا تھا۔جو محض دعویٰ ثابت ہوا۔اگر مجموعی طلب کے مقابلے میں بجلی کی پیداوار چار پانچ ہزار میگاواٹ زیادہ بھی ہو۔ تو عوام کو کوئی فائدہ نہیں۔ کیونکہ سسٹم اضافی بوجھ اٹھانے سے قاصر ہے۔ پشاور الیکٹرک سپلائی کمپنی والوں کا موقف ہے کہ لائنوں کی ناگزیر مرمت، بی آر ٹی منصوبے کی تعمیراور لائنوں کی تبدیلی کے باعث بھی اکثر بجلی بند کی جاتی ہے جس کا لوڈ شیڈنگ سے کوئی تعلق نہیں۔ جہاں لائن لاسز زیادہ ہیں اور بجلی چوری کی جاتی ہے۔ وہاں معمول سے زیادہ لوڈ شیڈنگ کا اصولی فیصلہ کیا گیا ہے۔نواحی علاقہ بڈھ بیر میں بجلی چوری کرنے اور کنڈے ڈالنے والوں کے خلاف کاروائی کے دوران پیسکو اہلکاروں کو لوگوں نے گھنٹوں یرغمال بنائے رکھا اور بجلی چوروں کے خلاف مقدمات درج نہ کرنے کی شرط منوانے کے بعد ہی یرغمالی اہلکاروں کی جان بخشی کی گئی۔بجلی کی آنکھ مچولی کا یہ عالم ہے کہ معمول کی لوڈ شیڈنگ کے اوقات کے علاوہ بھی پانچ منٹ کے لئے بجلی آتی ہے۔دس منٹ غائب رہتی ہے۔ پھر آتی اور جاتی رہتی ہے ۔رات کے اوقات میں بجلی کی آنکھ مچولی سے شہریوں کو شدید ذہنی کوفت سے دوچار ہونا پڑتا ہے۔ گرمی اور بجلی کے ستائے شہری آئے روز احتجاج بھی کر رہے ہیں۔ کہا جاتا ہے کہ ترقی کرنی ہے تو توانائی کی پیداوار بڑھانی ہوگی۔ پن بجلی کے علاوہ شمسی توانائی، کوئلے ، تیل ، ہوااور جوہری توانائی کے ذریعے بھی بجلی پیدا کی جارہی ہے۔ پاک چین اقتصادی راہداری کے تحت سترہ ہزار میگاواٹ بجلی پیدا کرنے کی صدائے باز گشت بھی سنائی دے رہی ہے۔نگران حکومت نے پانی کے ذخائر بڑھانے اور بجلی پیدا کرنے کے لئے کالاباغ، دیامر بھاشا،مہمندڈیم سمیت آٹھ بڑے منصوبوں کی تجویز حکومت کو پیش کی ہے۔ اس منصوبوں کی تکمیل سے دس ہزار میگاواٹ تک بجلی کی پیداوار حاصل ہو گی۔ لیکن سوال پھر وہیں پر آتا ہے کہ جب بجلی کی ترسیل کا موجودہ سسٹم ساڑھے سولہ ہزار میگاواٹ سے زیادہ بوجھ برداشت ہی نہیں کرسکتا۔ توپھر اضافی بجلی کا اچار تو نہیں ڈال سکتے۔ صرف بجلی پیدا کرنا ہی بڑا کارنامہ نہیں۔ اسے صارفین تک بھی پہنچانا ضروری ہے۔ بجلی گھر کی تعمیر کے ساتھ ٹرانسمشن لائن بچھانے کا کام بھی شروع ہونا چاہئے ۔ اگر پچاس ہزار میگاواٹ بجلی بھی پیدا کریں گے تو فرسودہ ترسیلی نظام کے باعث روزانہ آٹھ سے بارہ گھنٹے کی لوڈ شیڈنگ ہمارا مقدر ہے۔سوچنے کی بات یہ ہے کہ ہمیں جو بجلی میسر ہے اس کی قیمت تین سے چار روپے فی یونٹ بنتی ہے۔ مختلف ناموں سے درجن بھر ٹیکس شامل کرکے ہمیں بجلی بارہ سے پندرہ روپے فی یونٹ فراہم کی جاتی ہے۔ یہ اضافی رقم بجلی کی نئی ٹرانسمیشن لائن بچھانے پر خرچ ہونی چاہئے۔ واپڈا کے مطابق مختلف وفاقی اور صوبائی محکموں کے ذمے چار پانچ سو ارب روپے کے بقایاجات ہیں۔ یہ دو چار مہینوں کے نہیں۔ بلکہ بیس تیس سالوں سے انہوں نے بجلی کا بل ادا نہیں کیا۔یہ چوری سے زیادہ جرم اور سراسر سینہ زوری ہے۔ نادہندگان سے وصولیاں کرکے نئی ٹرانسمشن لائن پورے ملک میں بچھائی جاسکتی ہے۔ عوام پر اس بہانے مزید بوجھ ڈالنے کا کوئی جواز نہیں ہے۔ اب تک قومی وسائل کی چوری اور چوروں کی پشت پناہی کا دھندہ جاری تھا۔ نئی منتخب حکومت کے لئے بجلی کا نظام ٹھیک کرنا ایک چیلنج سے کم نہیں ہے۔توقع ہے کہ آنے والی حکومت مہنگائی کے پاٹوں تلے پسے ہوئے عوام پر مزید بوجھ ڈالے بغیر قوم کو درپیش اس سنگین مسئلے کے حل کو اپنی ترجیحات میں سرفہرست رکھے گی۔


شیئر کریں: