Chitral Times

Mar 29, 2024

ﺗﻔﺼﻴﻼﺕ

پولیو ہمارا قومی المیہ بن چکا ہے ،جس میں میڈیا کلیدی کردار ادا کر سکتا ہے،،کمشنر ملاکنڈ ظہیر الاسلام

Posted on
شیئر کریں:

سوات ( چترال ٹائمز رپورٹ ) کمشنر ملاکنڈ ڈویژن سید ظہیرالاسلام شاہ نے کہا ہے کہ پولیو ہمارا قومی المیہ بن چکا ہے یہ داخلی اور خارجی دونوں سطح پر عظیم قومی نقصان کا باعث بنا ہے پولیو ایک طرف ہمارے پھول بچوں کو دائمی اپاہج بنارہا ہے تو دوسری طرف ہم پر بین الاقوامی پابندیوں میں اضافے کا سبب بھی ہے میڈیا بھی اس نازک مرحلے پر اپنا فرض ادا کرے جو دراصل قوم کا نبض شناس ہے ہمیں درپیش بڑا چیلنج پولیو ویکسین کے خلاف دشمن قوتوں کا منفی پروپیگنڈا اور بعض والدین کا بچوں کو یہ ویکسین پلانے سے انکار ہے آج صرف افغانستان اور پاکستان دو پولیو زدہ ممالک میں رہ گئے ہیں یہ قوم کے ماتھے پر لگا بدنما داغ ہے اسکی بڑی وجہ یہاں جاری طویل دہشت گردی ہے مگر عالمی برادری ہماری قربانیوں کا عذر ماننے کو بھی تیار نہیں اسلئے ہم دونوں ممالک کو مل کر یہ داغ دھونا ہے جس میں میڈیا کلیدی کردار ادا کر سکتا ہے وہ سیدو شریف میں ایمرجنسی آپریشن سنٹر خیبر پختونخوا کے زیراہتمام جنوبی اضلاع کے صحافیوں کیلئے منعقدہ دو روزہ تربیتی ورکشاپ کی اختتامی نشست سے بحیثیت مہمان خصوصی خطاب کر رہے تھے پہلے روز ڈیرہ اسماعیل خان، ٹانک اور بنوں جبکہ دوسرے روز لکی مروت، کوہاٹ اور ہنگو کے صحافیوں کو انسداد پولیو میں درپیش چیلنجوں سے اگاہ کیا گیا اس موقع پرڈائریکٹر ای پی آئی ڈاکٹر اکرم شاہ،یونیسیف کے ڈاکٹر جوہر خان،ڈاکٹر اعجازالرحمان،بی ایم جی ایف کے ڈاکٹر امتیاز علی شاہ ، ڈبلیو ایچ او کے ڈاکٹر علاؤالدین اور دیگر ماہرین نے پولیو کی روک تھام میں پیش رفت اور والدین سمیت معاشرہ کے تمام طبقات میں شعور و آگاہی پیدا کرنے میں ذرائع ابلاغ کے کردار پر تفصیلی پریزنٹیشن پیش کیں ماہرین نے پاکستان سے پولیو کے خاتمہ کیلئے مشترکہ کاوشوں کی ضرورت پر زور دیتے ہوئے بتایا کہ پولیو ایک لاعلاج مرض ہے لیکن بروقت دو قطرے پلانے سے بچوں کو عمربھر کی معذوری سے بچایا جاسکتا ہے کمشنر ملاکنڈ نے کہا کہ پولیو کے خلاف مہم کئی عشروں پر محیط اور سینکڑوں رضا کاروں کی لازوال قربانیوں سے عبارت ہے ریاست کے تمام ادارے اور ستون یکجا ہوکر پولیو فری پاکستان کیلئے دن رات مصروف عمل ہیں میڈیا ریاست کا چوتھا مگر اہم ترین ستون ہے جس کا ملک اور قوم کو بنانے سے لیکر استحکام تک اہم ترین کردار ہے قوم صحافیوں کی قربانیوں کا برملا اعتراف بھی کرتی ہے مگر ہم نے مادر وطن کی ترقی اور استحکام کیلئے طویل جنگ لڑنی ہے جس میں پرنٹ و الیکٹرانک میڈیا کا رول مققنہ، عدلیہ اور انتظامیہ کے تین ستونوں سے کہیں زیادہ اہم بن چکا ہے پاکستان کا پولیو فری ملک کا درجہ ناگزیر ہو چکا سید ظہیرالاسلام شاہ نے کہا کہ وہ ماضی میں قبائل اور جنوبی اضلاع میں تعینات رہے جہاں انتظامیہ کی مخلصانہ کوششوں سے پولیو تقریبا ختم ہو چکا تھا 1995ء میں پولیو اختتام کے قریب اور 2000ء میں اس کا 99فیصد خاتمہ ہو چکا تھا مگر بدقسمتی سے نائن الیون واقعہ، مغربی مفادات اور دہشت گردی کی جنگ میں ہم بہت پیچھے چلے گئے پولیو ٹیموں پر حملوں کے سبب مہم بھی روکنا پڑی غلط فہمیاں بھی پھیلائی گئیں پی ٹی آئی حکومت میں اس پر واضح پیشرفت ہوئی عمران خان نے علماء کے ساتھ مہم کی قیادت کی کمشنر ملاکنڈ نے کہا کہ اس وقت بحیثیت ڈی سی پشاور خود پولیو مہم کو لیڈ کیا صرف شاہین مسلم ٹاؤن اور لڑمہ سمیت تین علاقوں میں پولیو کیس رپورٹ ہوئے اور ہماری قربانیوں کے طفیل پشاور بھی پولیو فری بنا آج پولیو صرف بلوچستان کے دور افتادہ ضلع تک محدود ہوا اور ثابت قدمی جاری رہی تو قوم کے ماتھے پر نظر آنے والا کلنک کا یہ ٹیکہ ہمیشہ کیلئے ختم ہوگا اور قوم اس چیلنج سے سرخرو ہوکر باہر نکلے گی میڈیا رہنمائی اور مسیحائی کا کردار ادا کرے سید ظہیرالاسلام شاہ نے کہا کہ تحریک پاکستان کی قیادت چوہدری رحمت علی، مولانا ظفر علی خان اور محمد علی جوہر سمیت بڑے صحافیوں اور دانشوروں نے کی جن سے مغربی حکمران بھی جھک کر ملا کرتے تھے مگر قیام پاکستان کے بعد شاید قوم غفلت کا شکار ہوئی تمام شعبوں میں انحطاط نے جڑیں پکڑیں مذہبی و علاقائی عصبیت اور کرپشن کا کینسر نیچے سے پھیلتا اوپر ہماری قیادت و حکومت میں سرایت کر گیا اور عظیم قومی نقصان کی وجہ بنا حالیہ انتخابات میں میڈیا نے حالات کا بلیو پرنٹ پیش کیا اور عوام کوووٹ لازمی کاسٹ کرنے اور فیصلہ سازی کی نہج تک پہنچایایہی کردار سازی ہے غریب قوم مزید کام چوری اور کرپشن کا متحمل نہیں ہو سکتی اب گڈگورننس، مثبت صحافت اور صحتمند تنقید کا زمانہ ہے ہمیں سوچنا ہوگا کہ پسماندگی اور غربت کیوں ہمارا مقدر بنی قبائلی عوام اور پختونوں کا کوئی قصور نہیں مگر ہمارا قصور یہ ہے کہ اس خطے میں دنیا جہاں کے مفادات جمع ہوگئے کوئی گرم پانی تک رسائی، کوئی روس اور چائنہ کا اثر روکنے اور کوئی ہماری ایٹمی صلاحیت ختم کرنے یہاں پہنچے اور دنیا جہاں کی ایجنسیاں ایڑی چوٹی کا زور لگانے لگیں اس میں عوام خواہ مخواہ پس رہی ہے مقام شکر کہ ہمارے دل و جان میں حب الوطنی رچی بسی ہے نظریہ کی بنیاد پر حق و باطل کی جنگ جاری ہے پاکستان اور اسرائیل نظریہ کی بنیاد پر بنے باقی سب کہانیاں ہیں دشمن قوتیں ہمارے ملک کو عراق، شام اور لیبیا کی طرح تباہ حال بنانے پر تلی ہیں مگر ہم دل و دماغ کی آنکھیں کھول کر یہ جنگ جیت سکتے ہیں پولیو سے لیکر کرپشن، قومیت، مذہبی عصبیت اور اداروں سے ٹکراؤ کی تمام سازشیں ناکام بنانی ہیں ان کے خلاف اٹھ کھڑا ہونا ہے کمشنر ملاکنڈ نے کہا کہ 2014ء میں صوبہ اور فاٹامیں مجموعی طور پرپولیو کے 147کیسوں کے مقابلہ میں گذشتہ سال صرف ایک پولیو کیس رپورٹ ہوا اور سال رواں کے دوران صوبہ بھر میں پولیو کا ایک بھی کیس سامنے نہیں آیا ماہرین کے مطابق 1988تک دنیا بھر میں ہرسال 3لاکھ سے زائد بچے پولیو کے ہاتھوں عمر بھر کی معذوری کا شکار ہوتے تاہم پولیو ویکسینیش کے سبب پاکستان، افغانستان اور نائجیریا کے سوا دنیا بھر سے پولیو کا خاتمہ ہوگیاانہوں نے پولیو ویکسین کے بارے میں غلط فہمیوں اور منفی پراپیگنڈے کو مسترد کرتے ہوئے کہا کہ پاکستان میں استعمال ہونے والی پولیو ویکسین موثر، محفوظ مگر بے ضرر محلول ہے جس کے کسی قسم کے منفی اثرات نہیں بھارت سمیت دنیا بھرمیں اسی ویکسین سے پولیو کا خاتمہ ہوا مہمان خصوصی نے کہاکہ پولیو کے خاتمہ کیلئے نیشنل ایمرجنسی ایکشن پلان کے تحت متواتر اور موثر انسداد پولیو مہمات کے ذریعے بچوں کو عمر بھر کی معذوری سے بچانے کی کاوشیں جاری ہیں جن کی کامیابی کا اندازہ اس بات سے لگایا جاسکتا ہے کہ 2014 میں پاکستان میں پولیو کے 306 کیس سامنے آئے جن میں68کیس خیبرپختونخوا اور179کیس قبائلی علاقہ جات سے رپورٹ ہوئے یوں موجودہ خیبرپختونخوا میں پولیو کیسوں کی مجموعی تعداد147تھی لیکن مسلسل کاوشوں سے گذشتہ سال ملک بھر سے رپورٹ ہونے والے 8کیسوں میں صرف ایک کا تعلق ہمارے صوبہ سے تھا جبکہ اس سال صوبہ سے ابھی تک پولیو کا کوئی کیس سامنے نہیں آیا سال رواں کے دوران پاکستان میں پولیو کے تینوں کیس بلوچستان کے ضلع دکی سے رپورٹ ہوئے ہیں انہوں نے کہا کہ جو والدین اپنے بچوں کو پولیو قطرے نہیں پلاتے وہ اپنے بچوں کے ساتھ ساتھ اس علاقہ میں دوسرے بچوں کو بھی پولیو کے خطرہ میں مبتلا کرنے اور ہم پر عالمی بنیادوں کا باعث بنتے ہیں بعد ازاں انہوں نے شریک صحافیوں میں اسناد تقسیم کیں۔
PIC swat


شیئر کریں: