Chitral Times

Apr 18, 2024

ﺗﻔﺼﻴﻼﺕ

عمران خان بطو ر و زیر اعظم پاکستان! ……..از شاہ زیم ابتسال نظار

Posted on
شیئر کریں:

مملکت خداداد دو قومی نظریے کی بنیاد پر آج سے کم و بیش ستر سال قبل معرض وجود میں ایا ۔ مملکت کے نام پر ایک قطعہ زمین تو حاصل کیا گیا لیکن مکینوں کو ایک قوم بنانے کی کوشش کسی نے نہیں کی۔ یہ اس ملک کی بد قسمتی تھی کہ وہ لوگ جنکے ذہنوں میں اس ملک کے باسییوں کو قوم بنانے کا خاکہ تھا وہ وقت سے بہت پہلے اٹھ گئے یا اٹھائے گئے۔ علامہ محمد اقبال، قائد اعظم محمد علی جناح، خان لیاقت علی خان ، مادر ملت فاظمہ جناح ۔۔۔یہ وہ لوگ تھے جو ضرور یہ جانتے تھے کہ اسلام کے نام پر حاصل اس قطعہ زمین کے باسیوں کو قو میت کا احساس کس طرح دلانا ہے۔ ان لوگوں کے جانے کے بعد قیادت حادثاتی طور پر جن لوگوں کے ہاتھ لگی ان لوگوں نے اس ملک کے مکینوں کی سمت ایسے بدل دی کہ مملکت کی پیدایش کے دو دھائیوں بعد ملک دولخت ہوگیا۔ مکینوں کو پھر بھی حوش نہیں آیا۔اگلے ڈھائی تین عشروں کے بعد حالا ت اس نہج پر پہنچ گئے کہ وہ لوگ جنکے ہاتھوں میں ہم نے اس بچھے کچھے ملک کی باگ دوڑ دیے وہ اسمبلی کے اندر اپنے اس ملک کے ایک حصے کو ا فغانستان کا حصہ قرار دینے لگے۔ قومیت کا احساس اس حد تک ختم ہوگیا کہ پورے ملک پر ایک اکیلے صوبے کی تاریخ کو بھاری گرداننے لگے۔ فوج کو ایک مخصوص صوبے کا نمائیندہ تصور کیا جانے لگا۔ پاکستانی وزیر اعظم کی جگہ پنجابی وزیر اعظم اور سندھی وزیر اعظم کی اصطلاح زیادہ استعمال ہونے لگی۔ گریٹر پاکستان کی جگہ گریٹر بلوچستان اور جناح کا پاکستان کی جگہ جناح پور کے تذکرے زیادہ ہونے لگے۔ ملک کے ایک کونے کے مکین یہ بھول گئے کہ اجرک ، لونگے اور پگڑی کی بھی اتنی ہی عزت ہے جتنی سرخ ٹوپی کی ہے ۔ ،ملک کے دوسرے کونے کے باسیوں کے دل میں یہ یقین پختہ ہونے لگا کہ بڑے بھائی کی حیثیت میں وسائل پر ان کا جو زیادہ اختیار ہے وہ نہ صرف مکمل ہے بلکہ دائمی بھی ہے ۔ جب ملک کے ایک کونے میں یہ سب ہونے لگا تو باقی ماندہ حصے میں بھی قومی اجتماعیت کمزور پڑنے لگی ۔ سندھ باسیوں نے سمجھ لیا کہ اسلام کا سورج جہاں سے بر صغیر پاک و ہند میں طلوع ہوا تھا یہی قائد کا پاکستان ہے ایسے میں ملک کے سردار وں کو بھی یاد آنے لگا کہ بلوچستان تو چار سو سال پرانا ہے۔۔ یہ سب اس لیے ہوا کہ ہمارے درمیان سے ایک پاکستانی قومیت کا احساس دلانے والا کوئی ایسا لیڈر سامنے نہں ایا کہ جو بیس کروڑ لوگوں میں یہ احساس پیدا کرتا کہ اپ ایک قوم ہو۔ جو یہ احساس دلاتا کی جہاں چھوٹے چھوٹے اختلافات ہیں وہیں ہمارے درمیان اس سے کئی گنا بڑے مشترک خصوصیات بھی ہیں ۔ قومیں اشتراک سے بنتی ہیں نہ کہ تفرقات سے۔۔۔۔۔۔لیکن کہتے ہیں کہ اللہ کے ہاں دیر ہے اندھیر نہں ۔ کئی دھائیوں بعد مشکلات میں گھری ، اپنے تشخص کو تلاش کرتی بکھری ہوئی قوم کی قیادت کی ذمے داری ایک ایسے انسان کے پاس ائی ہے جنکو اللہ پاک نے بے پناہ صلاحیتوں سے نوزا ہے۔ علمی لحاظ سے ایک ایسا شخص جو پاکستان کے ان گنتی کے چند لیڈروں میں سے ایک جنہوں نے اکسفورڈ جیسے شہرہ افاق درسگاہ سے تعلیم حاصل کی ہے۔اپنے قابلیت پر یقین اور اللہ پر توکل کا یہ عالم کہ ایک شکست خوردہ ٹیم کو چیمپین بنا دیا۔ بیماروں اور تکلیف میں مبتلا لوگوں کے مصائیب کی اس حد تک اگاہی کہ اپنے زندگی بھر کی جمہ پونجی لگا کر ایک ایسا عالمی پاے کا ہسپتال بنا ڈالا جو ہمارے ملک کے صاحب اقتدار کو سرکار کے خزانے سے بنانے کی توفیق نہ ہوئی۔ جذبہ خدمت انسانیت کا یہ عالم کہ اج بھی اس ادارے کے اخراجات کو پورا کرنے کے لیے خیرات مانگتا پھیرتا ہے۔ علمی میدان میں ایک عالمی پائے کی درسگاہ بھی اپنے محدود وسائل سے تعمیر کرکے اس انسان نے اپنے علم دوست ہونے کا نا قابل تردید ثبوت پیش کر دیاْ بکھرے ہوئے لوگوں کو ایک پرچم تلے جمع کرکے ایک طاقت کا روپ کسطرح دیا جاتا ہے اس کا اس سے بہتر مظاہرہ اور کیا ہوسکتا ہے کہ انتہائی نا مساعد حالات کے باوجود اپنی سوچ کو اج دو کروڑ لوگوں کی سوچ بنا دی۔۔ یہ سب اس انسان نے تن تنہا اپنی قابلیت ،ایمان داری ، سچا پن اور سخت محنت کے بل بوطے پر حاصل کیے ہیں۔۔ آج جب ہمارے ملک کی بھاگ دوڑ اس انسان کے سپررد ہو رہی ہے۔۔۔جی ہاں میں بات کر رہا ہوں عمران خان کی۔۔۔۔ تو مجھے یقین ہے کہ انشااللہ ہمارے محرومیوں کا درو ختم اور خوشحالی کا دور شروغ ہونے کو ہے۔
عمران خان پر اس کے تمام ناقدین کی سب سے مشترک تنقید یہ ہے کہ اس کے ساتھ وہی لوگ ہیں جو دوسرے پارٹیوں میں آزمائے ہوے ہیں وہ لوگ جب دوسرے پارٹیوں میں کچھ نہ کر سکے تو عمران خان ان کو لیکر کیسے کامیاب ہوسکتے ہیں ۔۔۹۲ کا ورلڈ کپ بھی انھی لوگوں کو لیکر جیتا تھا جو مسلسل ناکام ہوتے آرے تھے۔ کینسر ہسپتال بھی انھی لوگوں کے ساتھ ملکر بنایا جو خود کچھ نہ کر سکتے تھے۔ اور کہیں جانے کی ضرورت ہی کیا ہے تاریخ ہی اٹھا کر دیکھیں مہمات میں جب افواج ناکام ہوجاتی تھیں تو پوری فوج کو بدلا نہیں جاتا صرف قیادت بدل دی جاتی ہے اور ہی فوج فاتح بن جاتی تھیں۔یہاں بھی پیادے تو بیشک وہی ہیں لیکن کمان اب ایک کامیاب سپہ سالار کے ہاتھ میں ہے جنہوں نے کبھی ہار نہیں مانی۔
عمران خان پر ایک اور تنقید جو اکثر لوگ کرتے رہتے ہیں وہ ہے کہ ملک کے با اثر ادارے عمران خان کی بالواسطہ یا بلاواسطہ مدد کرکے اس کو اس اقتدار تک پہنچا ے ۔۔یہ تنقید وہ ادیب، فلاسفر، مورخین اور صحافی بھی کرتے ہیں جو اپنے اپ کو اس ملک کا سب سے زیادہ بہی خواہ تصور کرتے ہیں اور جنکے خیال میں جو وہ لکھتے ہیں وہ اس ملک کے سارے مسایل کی تشخیص ہے اور جو حل وہ بتاتے ہیں وہ ان امراض کا واحد علاج ہے۔ عمران خان پر اپنے تنقید کو درست ثابت کرنے کے لیے وہ اپنے ملک کے سرحدوں کے محافظوں کو بھی انتہائی معیوب القابات سے نوازنے سے بھی گریز نہیں کرتے ۔مجھے اس بات کی آج تک سمجھ نہیں آئی کی بھلا اپنے ہی فوج کو نیچا دکھا کر کیسے آگے بڑھا جا سکتا ہے۔مجھے ایک ایسی ملک دکھا دیں جس نے اپنے فوج کو بدنام کرکے ترقی کرلی ہو۔ میرے خیال میں عمران خان کی عزت جسطرح سب کرتے ہیں کیونکہ اس کا ماضی کسی مالی کرپشن ،اقرباپروری ، اختیارات کے ناجائیز استعمال اور ملک دشمنی جیسے الزامات سے پاک ہے اس لیے لوگوں کی طرح اداروں کی نظر میں بھی عمران خان کی عزت ہے اور اس عزت کو لوگ مدد تصور کرتے ہیں۔۔ اج اگر ہمارے ملک کے مقتدر اداروے بشمول عدلیہ اور فوج کے اگر عمران خان کو قدر کی نگاہ سے دیکھتے ہیں تو یہ ہماری خوش قسمتی ہے کہ اج تک ہمارے ملک کے تمام سابقہ سول حکمران جس بات کا رونا رو رہے تھے کہ فوج ہمارے احکام کے تابع نہیں رہتی(مطلب عزت نہیں کرتی) اج عمران خان کی جیت سے یہ مسلہ تو خود بخود حل ہوگیا ۔
ہمارے کچھ لکھاری حضرات محض اس بنیاد پر بھی عمران خان پر تنقید کرتے نہیں تھکتے کہ عمران خان کی نجی زندگی بہت رنگین رہی ہے۔ اس رنگینی کا حوالہ وہ ریحام خان کی کتاب یا کسی ایسے بندے کی تصنیف سے دیتے ہیں جو کسی نہ کسی حوالے سے عمران خان کی ذات سے یا اس کی پالیسیوں سے اختلاف رکھتا ہو۔ عمران خان کی ذاتی زندگی کیسی رہی ہے اس بارے میں میں
اپنی رائے دینے سے پہلے صرف اتنا کہونگا کہ جب کوئی انسان ترقی کرنے لگتا ہے اردگرد وہ تمام لوگ جنکے نصیب میں ایسی کامیابی نہیں ہوتی وہ حسد کرنے لگتے ہیں۔ اپنے اندر دہکتے حسد کے ان انگاروں کو ٹھنڈا کرنے کے لیے وہ اس انسان کے بارے میں چھوٹی چھوٹی ذاتی اور نجی باتوں کا بتنگڑ بنا کر اور انھیں مرچ مصالحے لگا کر پیش کرتے ہیں۔ اگر گستاخی معاف ہو تو مجھے تو ہمارے عروج کے دور کے کامیاب بادشاہوں کے بارے میں خود ان کے وظیفہ خور مورخین کے لکھے ہوئے تصانیف ریحام خان کی کتاب سے زیادہ مصالحے دار اور چٹ پٹا لگے۔عمران خان کے بارے میں تو خیر ان کے مخالفین نے ایسے لکھے ہیں۔
مختصر یہ کہ ہمیں آج ایک نئی قیادت ملی ہے۔ اس کے بارے میں ایک مثبت سوچ اور امید رکھنا ہی بہترین مصلحت ہے۔ ہمیں اج عملیت پسندی کا مظاہرہ کرتے ہوے اپنے لیڈر کے بارے میں ایک ا چھے سوچ کو بڑھاوا دینا چاہیے نہ کہ ایک منفی سوچ کو۔ ہمارے لیے لیڈر ہمارے ہی درمیان سے اے گا اور کم ا بیش ہماری جیسی ہی عادات کا مالک ہوگا۔ اب ہم اتنے بھی اچھے نہیں کہ ہمارے لیے لیڈر بھی کسی اور دنیا سے بھیجا جاے۔۔ میرے نزدیک عمران خان میں ایک اچھے لیڈر کی تمام خصوصیات بدر جہ اتم موجود ہیں اور مجھے امید ہے یہی ہمارے ملک کو مسائل کے بھنور سے نکال پایگا ۔ اس سے بہتر صورت اور کیا ہو سکتی ہے کہ ملک کے اہم ادارے عمران کے معاملے پر ایک صحفے پر ہیں۔ انہی ادارووں کر لیکر اگے جا کر کسی بھی وزیر اعظم نے کام کرنا ہے۔ ملک کی اکثریت نے جب عمران خان کو چنا ہے تو ہمیں اکثریت کی خواہش کا احترام کرنا چاہیے۔۔۔ممکن ہے میری کسی بات سے آپ مکمل اتفاق نہ کرتے ہو یہ آپ کا جمہوری حق ہے لیکن جب اکثریت نے انھیں چنا ہے تو اکثریت کے رائے کا احترام کرنا بھی اسی جمہوریت کا تقاضا ہے جو آپ کو اختلاف کرنے کا حق دیتا ہے۔


شیئر کریں:
Posted in تازہ ترین, مضامینTagged
12396