Chitral Times

Apr 19, 2024

ﺗﻔﺼﻴﻼﺕ

تعلیمی اداروں میں جی سی سی کا قیام ………….محمد شریف شکیب

Posted on
شیئر کریں:

خیبر پختونخوا حکومت نے صوبے کے تمام تعلیمی اداروں میں گڈ سٹیزن کارپس کے قیام کا اعلامیہ جاری کردیا ہے۔ پراونشل ریفارمز کوارڈی نیٹر کی طرف سے جاری اعلامیہ کے مطابق کارپس کے قیام کا مقصد طلبا کو سماجی کاموں میں عملی طور پر شریک کرنا ہے تاکہ جب وہ تعلیم سے فارع ہوں تو مفید شہری بن سکیں۔ سکولوں، کالجوں اور یونیورسٹیوں کی سطح پر طلبا کو سماجی، ثقافتی اور غیر نصابی سرگرمیوں میں شامل کیا جائے گا۔ نیشنل کیڈٹ کارپس’’ این سی سی‘ کی طرز پر شروع کئے گئے جی سی سی پروگرام کو نصاب کا حصہ بنایاجائے گا اور پروگرام میں شریک طلبا کو دس یا بیس نمبر دیئے جائیں گے ۔اس پروگرام کے تحت بچوں کو ابتدائی عمر سے ہی ماحول کی صفائی، امداد باہمی، رضاکارانہ سماجی خدمت اور صحت مندانہ مقابلے کی تربیت دی جائے گی۔1970کے عشرے میں کالجوں میں نیشنل کیڈٹ کارپس پروگرام شروع کیا گیا تھا۔ جس کے تحت طلبا کو پی ٹی، پریڈ اور نشانہ بازی کی تربیت دی جاتی تھی۔این سی سی میں شرکت لازمی تھی۔صرف معذور طلبا اور طالبات اس سے مستثنیٰ تھیں۔ اس وقت طلبا کوجو رائفلیں دی گئیں وہ تقریبا دس کلو وزنی تھیں۔ آرمی کا ایک حوالدار ہماری این سی سی کی کلاس لیتا تھا۔ جس نے رائفل کا نام دو دنوں میں ہمیں زبانی یاد کرایا تھا۔ رائفل کا نام ’’ کالی بار پوائنٹ تھری زیرو1918ایٹ ٹو برونک آٹومیٹک رائفل‘‘آج بھی مجھے زبانی یاد ہے۔اس بھاری بھر کم رائفل کے نام سے ہی اندازہ ہوتا ہے کہ وہ پہلی جنگ عظیم کے دوران تیار کی گئی تھی۔ اس کی خوبی یہ تھی کہ برسٹ مارنے کی استعداد کے باوجود متواتر دو گولیاں فائر نہیں ہوتی تھیں ایک فائر کے بعد دوسری گولی پھنس جاتی تھی۔ہماری پولیس کے پاس بھی وہی رائفلیں ماضی قریب تک ہوا کرتی تھی۔ڈاکووں، چوروں، قاتلوں، رہزنوں اور سماج دشمن عناصر کو پکڑنے میں پولیس کیوں ناکام ہوتی تھی۔ اس کی وجہ ہمیں ان کے پاس موجود رائفل کی حقیقت جاننے کے بعد معلوم ہوئی۔ اس رائفل کے نام پر مشتاق احمد یوسفی مرحوم کا ایک مشہور جملہ یاد آیا۔ کہتے ہیں کہ مولانا ابوالکلام آزاد اپنا سن پیدائش یوں بیان کرتے ہیں’’ یہ غریب الدیار، عہد ناآشنا، عصر بیگانہ، خویش نمک پرودہ ریش ، خرابہ حسرت کہ موسوم بہ احمدمدعو بابی الکلام 1888میں ہستی عدم سے اس عدم ہستی میں وارد اور تہمت حیات سے مہتم ہوا‘‘ یوسفی کہتے ہیں کہ اب لوگ اس طرح اپنا سن پیدائش نہیں لکھتے۔ بلکہ اس طرح پیدا بھی نہیں ہوتے۔ اتنی خجالت و طوالت و اذیت تو آج کل سیزیرین پیدائش میں بھی نہیں ہوتی‘‘۔خیر یہ تو ایک جملہ معترضہ یا مشتاق یوسفی مرحوم کو یاد کرنے کا ایک بہانہ تھا۔ بات ہورہی تھی گڈ سٹیزن کارپس کی۔یہ ایک مستحسن فیصلہ ہے۔ بچوں کو نصابی کتب کے علاوہ اپنی روایات، اقدار، تہذیب اور ثقافت سے آگاہ کرنا موجودہ وقت کی اہم ضرورت ہے۔رضاکارانہ خدمت اور امداد باہمی کا جذبہ اگر بچپن میں اجاگر کیا جائے توبچوں کے ذہنوں میں نقش ہوجائے گا۔وہ زندگی بھر اس سبق کو نہیں بھولیں گے اور اسے اپنی عملی زندگی کا حصہ بنائیں گے۔ سرکاری اعلامیہ میں واضح کیا گیاہے کہ اس کا اطلاق صوبے کے تمام تعلیمی اداروں پر ہوگا۔ توقع ہے کہ جی سی سی کا اطلاق صرف سرکاری سکولوں پرہی نہیں بلکہ پرائیویٹ تعلیمی ادارے بھی اس اصلاحی پروگرا م پر عمل درآمد کے پابند ہوں گے۔خیبر پختونخوامیں تحریک انصاف کی سابقہ حکومت نے تبدیلی کے ایجنڈے کے تحت تعلیم اور صحت کے شعبوں کو اپنی ترجیحات میں پہلے بھی سرفہرست رکھا تھا۔ اور ان شعبوں میں کافی تبدیلیاں بھی لائی گئی ہیں۔ اب پی ٹی آئی کو دوسری بار صوبے میں دو تہائی اکثریت کے ساتھ حکومت بنانے کا موقع ملا ہے۔ توقع ہے کہ تعلیم کے شعبے کو اس بار پہلے سے بھی زیادہ اہمیت اور فوقیت دی جائے گی۔ تعلیمی اصلاحات کے تحت سرکاری سکولوں کو تمام بنیادی اور ضروری سہولیات کی فراہمی کے باوجود گذشتہ دو تین سالوں سے میٹرک اور انٹر میڈیٹ کے امتحانات میں ان کی مایوس کن کارکردگی کے پیش نظر یہ ضروری ہوگیا ہے کہ نصاب میں وقت کے تقاضوں کے مطابق تبدیلی لائی جائے۔تاکہ مستقبل کے معماران قوم کو آنے والے دور کے چیلنجوں سے نمٹنے کے قابل بنایاجاسکے۔


شیئر کریں:
Posted in تازہ ترین, مضامینTagged
12371