Chitral Times

Mar 29, 2024

ﺗﻔﺼﻴﻼﺕ

گلگت میں پانی کا سنگین مسلہ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔وزیر اعلیٰ نوٹس لیں… تحریر:محمد ذاکر

Posted on
شیئر کریں:

water tote
پانی، ہوا اور خوراک کا شمار انسان کی بنیادی ضروریات میں ہوتا ہے جس کے بغیر حیات انسانی ممکن نہیں۔گلگت شہر بالخصوص یادگار محلہ، محمدی محلہ ، پلٹنی محلہ، بڑی محلہ، نگرل، سونیکوٹ،ڈومیال، مجینی محلہ، مغل پورہ، بازار ایریا اور کوٹ محلہ کے سینکڑوں عوام نے گزشتہ ایام پینے کے صاف پانی کی فراہمی کے لئے اس سنگین مسلے پر سڑکوں میں نکل کر احتجاج کرنا شروع کردیا۔ جبکہ حالیہ دنوں کشروٹ کے دیگر محلوں سمیت سونیکوٹ کے عوام نے کشروٹ میں موجود محکمہ واسا دفتر پارک سٹیشن میں دھرنا بھی دیا کیونکہ ان علاقوں کے عوام ایک عرصے سے پینے کے صاف پانی کیلئے ترس رہے ہیں۔ان میں سے بعض علاقے تو ایسے ہیں جو پانی کے حوالے سے کربلا کا منظر پیش کررہے ہیں۔اس عوامی احتجاج اور دھرنے کے باعث وزیر اعلیٰ حافظ حفیظ الرحمن صاحب نے وقتی طور پر اتحاد چوک کے مقام پر کنٹرول وال نصب کرکے باری باری کے حساب سے پانی مہیا کرنے کا اہتمام تو کیا اور آنے والے دنوں میں اس عزاب سے نمٹنے کیلئے3کروڑ لاگت کی8انچ پائپ لائن نصب کرنے کے منصوبے کا اعلان بھی کیا لیکن زمینی حقائق کو دیکھا جائے تو اس سے بھی مستقبل میں پانی بحران کا مسلہ حل نہیں ہوسکتا ہے۔اس کیلئے وزیر اعلیٰ صاحب کو آئندہ کیلئے کم از کم50سالوں کا پلان بنا کر برمس کے مقام پر ایک نیاء واٹر کمپلکس تیار کرنا ہوگا کیونکہ برمس کے مقام پرآج سے تقریباََ30سال پہلے بنایا گیا واٹر کمپلکس جو بغیر پلان کے اس وقت کی آبادی کیلئے بنایا گیا تھا۔30سال پہلے گلگت کی آبادی50ہزار نفوس پر مشتمل تھی آج جبکہ مذکورہ آبادی بڑھ کر ڈیڑھ لاکھ سے تجاوز کرگئی ہے۔ماضی کی حکومتوں نے کارگاہ نالہ سے گریڈ واٹر کا بہت بڑا پائپ لائن منصوبہ تو بنایا مگر برمس واٹر کمپلکس کو توسیع کرکے بڑا نہیں کیا جہاں پر پانی ذخیرہ کرنے کی گنجائش30سال پرانی ہی ہے۔ہم وزیر اعلیٰ صاحب سے پوچھتے ہیں کہ اسی پرانی ٹینکی سے اگر وہ8انچ کی نئی پائپ لائن لوگوں کو دیں گے تو اس سے کیا فرق آئے گا۔۔۔۔۔۔؟صاف ظاہر ہے پانی بحران کا مسلہ اپنی جگہ ہی کھڑا رہے گا اور3کروڑ روپے ویسے ہی ضائع ہوں گے۔اس کے علاوہ اتحاد چوک میں نصب کئے گئے کنٹرول واس سے بھی عوام مطمئن نہیں ہیں کیونکہ اب تک پانی بحران کا مسلہ وہی پر کھڑا ہے جو پہلے تھا۔علاوہ ازیں گلگت شہر میں پانی بحران کی ایک وجہ یہ بھی ہے کہ شہر اور مضافات کے زمینداران کاشتکاری کیلئے بھی مذکورہ پائپ لائینوں کا استعمال کررہے ہیں اور تمام سرکاری باغات بھی برمس واٹر کمپلکس کے پانی سے سیراب ہورہے ہیں کیونکہ آبپاشی کیلئے گلگت کے جتنے بھی کوہل تھے حکومتی عدم توجہ کے باعث ہی خستہ حال ہوچکے ہیں بلکہ بعض کوہل تو صفئحہ ہستی سے ہی مٹ چکے ہیں۔اس کی واضح مثال یہ ہے کہ قدیم سردار کوہل کے پانی میں ہفتے کے7دنوں میں سے5دنوں کی باری سرکاری باغات کی ہے اور2دن زمینداروں کیلئے مختص ہیں۔اب مذکورہ سردار کوہل تقریباََصفئحہ ہستی سے بھی مٹ چکا ہے۔یہی وجہ ہے کہ سرکاری باغات بالخصوص چیف سیکریٹری باغ، فورس کمانڈر باغ، فوجی آفیسر جیس باغ، ڈسٹرکٹ ہیڈ کوارٹر ہسپتال باغ و دیگر تمام سرکاری باغات کو سرسبز کرنے کیلئے گرمیٹر واٹر پائپ لائن کا ہی پانی دے رہے ہیں۔برمس واٹر کمپلکس کیلئے30سال پہلے جو کوہل بنایا گیا تھا وہ تو مکمل طور پر مٹ چکا ہے اگر حکومت مخلص ہوگی تو اس کوہل کو بھی ٹھیک کرکے زمینداروں کیلئے قابل استعمال لاسکتی ہے۔اس کے علاوہ گلگت شہر کیلئے نکالی جانے والی دادی جواری دور کے دو اہم کوہلات یعنی کوہل بالا و پائین بھی حکومتی عدم توجہ کے باعث ہی ختم ہوکر گٹر لائینوں میں بدل چکی ہیں اور ان کوہلوں سے متصل زمینداران گریٹر واٹر پائپ لائنوں کا پانی اپنی زمینوں کو دے رہے ہیں۔پانی کے اس سنگین بحران کو ختم کرنے کیلئے ضروری ہے کہ حکومت مذکورہ بالا کوہلوں کی از سرنو تعمیر و مرمت کا منصوبہ شروع کریں بصورت دیگر پانی بحران پر قابو پانا ناممکن نظر آتا ہے۔ اس کے علاوہ گریٹر واٹر کی مین پائپ لائنوں سے محکمہ واسا والوں نے اپنے من پسند اور بااثر افراد کو جو غیر قانونی کنکشن دیئے ہیں یہ بھی پانی بحران کی ایک وجہ ہے۔امپھری، نپوری بسین اور بسین بالا کے لوگوں کی شکایات ہے کہ ڈپٹی سپیکر جعفر اللہ خان نے اپنے اے ڈی پی سکیم میں2سال قبل گریٹر واٹر پائپ لائنوں کیلئے7کروڑ روپے اور اضافی بجٹ کے ساتھ مجموعی طور پر16کروڑ روپے کا جو منصوبہ رکھا تھا وہ بھی التواء کا شکار ہے اور دوسال گزرنے کے باؤجود ٹیندر تک نہیں ہوا جس کی وجہ سے مذکورہ علاقوں کے عوام سخت اذیت سے دوچار ہیں۔ڈپٹی سپیکر صاحب کو چاہئے کہ وہ ان معاملات کا نوٹس لیں کیوں محکمہ واسا کے حکام اسکا ٹینڈر روکے ہوئے ہیں تاکہ عوام پریشانی سے دور ہوں۔آخر میں وزیر اعلیٰ صاحب سے کہتے ہیں کہ جب تک پانی کی نئی ٹینکیاں نہیں بنیں گی اور آئندہ کے 50سالوں کا پلان تیار نہیں ہوگا خستہ حال کوہلوں کی ازسر نو تعمیر و مرمت کرکے آبپاشی کیلئے قابل استعمال نہیں بنایا جاسکے گا نہ صرف ان کا 3کروڑ روپے پانی پکیج منصوبہ فلاپ ہوگا بلکہ اس بات کا خدشہ ہے کہ آئندہ دو سالوں میں عوام پانی کے بوند بوند کو ترسیں گے اورحکومت کے خلاف سخت احتجاجوں، دھرنوں اور مظاہروں کا نہ رکنے والا سلسلہ شروع ہوجائیگا۔قبل ازیں حکومت کو ان تمام بحرانوں کے خاتمے کیلئے اقدامات کرنے ہوں گے اور پانی سرسے گزرنے کے بعد کوئی کچھ نہیں کرپائے گا۔


شیئر کریں: