Chitral Times

Mar 29, 2024

ﺗﻔﺼﻴﻼﺕ

خوش آمد کی خباثت………..تحریر : اقبال حیات اف برغذی

Posted on
شیئر کریں:

حال ہی میں ایک سیاسی خانوادے کے افرا د الیکشن کی عوامی رابطہ مہم پر ایک گاؤں آئے تھے۔مذکورہ گاؤں کے کچھ افراد ان کی پذیرائی اور خوشامدمیں اتنے پیش پیش تھے کہ ان کے دل شوق خدمت اور جذبہ تابعداری سے نہاں خانے سے باہر نکلنے کو تڑپتے تھے۔ دل میں مچلنے والے دنیاوی غرض،مطلب اور لالچ کے تعفن کا احساس ہوتا تھا۔اس منظر اور کیفیت کو اگر کُتا دیکھ لیتا تو اپنی موروثی صفت سے دستبرداری کا اعلان کرتا۔
نہ جانے اپنی دنیاوی مقاصد کا ناتہ اپنے ہم جنس سے جوڑنے جیسے قبیح فعل کے ارتکاب پر ایک انسان کی ضمیر اس کی ملامت کیوں نہیں کرتی ۔اور بحیثیت مسلمان خدا سے سب کچھ ہونے اور خدا کی مرضی کے بغیر مخلوق سے کچھ بھی نہ ہونے کے اسلامی تصور اور عقیدے کا لحاظ کیوں نہیں رکھا جاتا ۔ آخیر خداوند عظیم کے وجود کے اقرار کے ساتھ اپنی زندگی کے ارتقائی مراحل کو مدنظر رکھتے ہوئے اس عظیم ذات کے در کو چھوڑ کر اپنے ہم جنس کے سامنے ذاتی مقاصد کے حصول کی امید پر جبین نیاز خم کرنے پر شرمساری کا احساس کیوں نہیں ہوتا۔ حالانکہ دنیا کی کشش اور لذت تمام بنی نوع انسان کے لئے یکسان حیثیت کا حامل ہونے کے باوجود تاریخ دنیا رب کائنات پر کامل ایمان کیمظاہر سے ضوفشا ن ہے۔ حضرت حاتم اصم ؒ ایک مرتبہ سفر پر جانے سے قبل اپنی اہلیہ سے فرماتے ہیں کہ میں چار مہینے گھر سے باہر رہونگا۔ تمہارے لئے کتنا خرچہ چھوڑ کر جاؤں ۔وہ جواب دیتی ہیں کہ جتنی مدت آپ کو میری زندگی منظور ہو اس نسبت سے میرے لئے خرچہ چھوڑنا ۔ حضرت فرماتے ہیں کہ زندگی تو اللہ کے ہاتھ میں ہے۔ میں کون ہوتا ہوں اس کا تعین کرنے والا ۔آپ کی اہلیہ جواب دیتی ہیں کہ یوں میری روزی بھی آپ کے ہاتھ میں نہیں ہے۔ حضرت حاتم ؒ کے جانے کے بعد ایک پڑوسی خاتون آپ سے خاوند کی طرف سے چھوڑے جانے والے خرچ کے بارے میں دریافت کرنے پر آپ فرماتی ہیں کہ حاتم ؒ تو خود روزی کھانے والے تھے۔ جو کھانے والا تھاوہ چلا گیا اور جو دینے والاہے وہ موجود ہے۔
انسانوں کے اس قسم کی راسخ عقیدوں سے مماثل بے زبان جانوروں کی یقین کی بھی مثالین ملتی ہیں۔ ایک دفعہ حضرت سلیمان علیہ السلام ایک چیونٹی سے ان کے سال کے خرچے کے بارے میں دریافت پر وہ کہتی ہے کہ میں سال میں گند م کے دودانے کے برابر خوراک کھا تی ہوں۔ پیغمبرﷺ حیرت کا اظہار کرتے ہوئے چیونٹی کو پکڑ کر گندم کے دو دانوں کے ساتھ ایک بوتل میں بند کرکے محفوظ جگہ پر رکھ دیتے ہیں۔ایک سال بعد جب بوتل کھولتے ہیں تو صرف ایک دانہ گندم چیونٹی نے کھائی تھی۔ اور دوسرا دانہ موجود تھا وجہ پوچھنے پر چیونٹی کہتی ہے کہ پہلے میں آزاد ہونے کی بناء پر خدا پر یقین رکھتے ہوئے دانے کھایا کرتی تھی۔ اب چونکہ میں ایک انسان کی قید میں تھی۔ اور مجھے خدشہ تھا کہ بھولنے کی صورت میں شاید رہائی پر دو سال بھی لگ سکتے ہیں اس لئے اگلے سال کے لئے میں نے ایک دانے کو حفظ ما تقدم کے طور پر محفوظ کرلی تھی۔
چیونٹی کی یہ بات سن کر سلیمان علیہ السلام آزردہ ہوتے ہوئے فرماتے ہیں کہ اے میرے رب آپ واحد رزاق ہیں اگر یہ صفت کسی انسان کو ملتی تو لوگ بھوکوں مرجاتے


شیئر کریں: