Chitral Times

Mar 28, 2024

ﺗﻔﺼﻴﻼﺕ

چترال پولنگ۔ اب تک کون جیت رہاہے؟…… (اعجاز احمد)

شیئر کریں:

……………………………………………………………………………………………………..ادارے کا مراسلہ نگارکی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں!
سابق وزیراعظم نواز شریف کو 10 سال قید کی سزا کے ایک ہفتے بعد چترال میں بعض خفیہ اداروں کی رپورٹس کے مطابق پارٹی کی مقبولیت کم ہوگئی ہے اور پاکستان مسلم لیگ ن کے این اے -1 کے امیدوار شہزادہ افتخارالدین کی پوزیشن تیسری ہے، رپورٹس کے مطابق سابق وزیراعظم کو سزا سنانے سے پہلے قومی اسمبلی کیلئے امیدوار افتخارالدین پہلی پوزیشن پر براجمان تھے۔ خفیہ اداروں کے مطابق فی الحال مذہبی جماعتوں کا اتحاد متحدہ مجلس عمل (ایم ایم اے) پہلے اور جبکہ پاکستان تحریک انصاف (پی ٹی آئی) تیسرے نمبر پر ہیں۔
کیا اِن رپورٹس پر اعتبار کیا جاسکتاہے؟ خفیہ اداروں کے پاس ووٹرز کا ذہن پڑھنے کا کونسا آلہ موجود ہے؟ کیا وہ گھروں، دکانوں اور شاہراہوں پر لہرانے والے جھنڈوں اور آویزاں بینرز اور اشتہارات سے اندازہ لگاتے ہیں؟ اس لسٹ میں دیگر پارٹیوں کو نظر انداز کیوں کیا گیا ہے؟ پاکستان پیپلز پارٹی جو سابقہ الیکشنز میں دونوں صوبائی نشستوں پر کامیاب ہوئی تھی کی پوزیشن کیا ہے؟ درج بالا رپورٹس بتانے والا مذکورہ سوالوں کے جواب دینے سے قاصر تھا۔
25 جولائی کو ہونے والے عام انتخابات کیلئے ایک ہفتے سے کم وقت رہ گیا ہے، ضلع چترال میں اس وقت کون جیت رہاہے؟ آئیے اس کا اندازہ لگاتے ہیں۔ سابق ایم این اے شہزادہ افتخار الدین کو گزشتہ انتخابات میں 29772 ووٹ ملے تھے۔ یہ ووٹ اُن کو سابق صدر پرویز مشرف کا ساتھی ہونے کا تھا یا اُن کا اپنا، یہ وضاحت تو الیکشنز کے بعد معلوم ہوگی ۔ خفیہ اداروں کے مطابق نواز شریف کو سزا سنانے سے قبل اگر افتخارالدین جیت رہے تھے تو سزا سنانے کے بعد اُن کے ووٹ میں اضافہ ہونا چاہئے، پاکستان میں عموماًٍ اور چترال میں خصوصاً ہمدردی کا ووٹ ملنا یقینی ہے۔ پرویز مشرف کو بھی چترال سے ہمدردی کا ووٹ ملا تھا، 2003ء میں سابق صدر پرویز مشرف کے کاغذات پورے پاکستان میں مسترد کردئے گئے اور چترال میں شہزادہ افتخار تو کورنگ (covering) امیدوار تھے۔ چترالی ووٹر نے اگر یہ جاننے کے باوجود کہ مشرف اب نہ حکومت بناسکتے ہیں اور ممبر بن سکتے ہیں اُن کو ووٹ دیا تو نواز شریف کے حوالے سے یہ فیصلہ کیوں نہیں کریں گے؟ لواری ٹنل اور گولن گول ہائیڈرو پاؤر پروجیکٹ کے حوالے سے مشرف اور نواز شریف کو مساوی کریڈٹ ملتاہے اور افتخار کا کردار دونوں کے ساتھ پیشہ ورانہ تھا۔
اب دیکھنا یہ ہے کہ افتخارالدین اپنے لگ بھگ 30 ہزار ووٹ دوبارہ لے سکیں گے یا نہیں۔ سابقہ الیکشنز میں اُن کے چھوٹے بھائی شہزادہ خالد پرویز جو اسی پارٹی کی طرف سے حلقہ پی کے 89 سے بطور امیدوار 10 ہزار سے زائد ووٹ حاصل کرکے دوسری پوزیشن لے چکے تھے جبکہ بالائی چترال یعنی پی کے 90سے حاجی غلام محمد کو ساڑھے 10 ہزار نصیب ہوئے تھے، اب ضلع چترال سے مجموعی طورپر پرویز مشرف کے صوبائی اسمبلی کے امیدواروں کو تقریباً 21 ہزار ووٹ ملے لیکن قومی اسمبلی کے امیدوار کو تقریباً 30 ہزار۔ اس کی وجہ گورنمنٹ ڈگری کالج بونی کے ایک پروفیسر نے(جنہوں نے نام ظاہر نہ کرنے کی درخواست کرکے) شہزادہ افتخار کی اچھی شہرت کو قرار دیا۔ انہوں نے کہا کہ اُن کی پاکدامنی کی شہرت حالیہ الیکشنز میں بھی اُن کو فائدہ دے گی۔ انہوں نے کہا کہ اچھی شہرت کے علاوہ افتخار کی پرفارمنس سب سے اچھی ہے۔ کیا افتخار کو ملنے والا ووٹ اُن کے پینل کے ساتھی اور ن لیگ کے (پی کے -1) صوبائی امیدوار عبدالولی ایڈوکیٹ کو پڑے گا؟ اس سوال کے جواب میں اُن کا کہنا تھا کہ ایڈوکیٹ صاحب کو لوئیر چترال میں بہت ووٹ ملے گا کیونکہ ارندو سے برنس تک کوئی صوبائی امیدوار میدان میں نہیں اور سابقہ الیکشنز میں انہوں نے ساڑھے سات ہزار سے زائد ووٹ لیکر ثابت کیا کہ وہ گنتی میں موجود ہیں، یہ ووٹ اگر اُن کے ذاتی تھے تو حالیہ الیکشنز میں اُن کی تعداد ڈبل ہونی چاہئے۔
پی کے 90 میں مسلم لیگ ن کو محض 4 ہزار ووٹ ملے تھے۔ اس بار بھی اپر چترال میں صوبائی اسمبلی کے امیدواروں کی بہتات بتاتی ہے کہ عبدالولی ایڈوکیٹ کو شائد وہ پزیرائی نہ ملے۔ خٖفیہ اداروں کی رپورٹس میں پاکستان پیپلز پارٹی کا نمبر نہیں بتایا گیا ہے حالانکہ پی پی پی کے سلیم خان نے دو مرتبہ صوبائی نشست اپنے نام کرلی تھی۔ گزشتہ انتخابات میں پی پی پی کو قومی اور صوبائی اسمبلیوں کیلئے پڑنے والوں ووٹوں میں کوئی زیادہ تفاوت نہیں ہے، قومی میں تقریباً 20 ہزار اور صوبائی اسمبلی کی دونوں نشستوں میں مجموعی طورپر پر 22 ہزار ووٹ حاصل ہوئے۔ پیپلز پارٹی کیلئے جیتنے کے مواقع اسلئے بنتے ہیں کہ پارٹی کے اپنے 22 ہزار ووٹ کے ساتھ حاجی غلام محمد کے 10 ہزار ووٹس کا اضافہ ہوتا ہے جو انہوں نے سابقہ الیکشنز میں حاصل کئے تھے تو پیپلز پارٹی کی پوزیشن مستحکم دکھائی دیتی ہے۔
اب ایم ایم اے کے امیدواروں کی طرف آتے ہیں جنہیں خفیہ اداروں نے ٹاپ پوزیشن دی ہے۔ بلاشبہ سابقہ الیکشنز میں مولانا عبدلاکبر چترالی نے ساڑھے 20 ہزار ووٹ حاصل کئے تھے جبکہ جمعیت علمائے اسلام کے مولانا ہدایت الرحمٰن کو ساڑھے 16 ہزار کے قریب ووٹ ملے جنکی مجموعی تعداد 36 ہزار سے زائد ہے۔اس حساب سے واقعتاً ایم ایم اے کی پوزیشن ٹاپ پر ہے۔ لیکن اب کی بار صورتحال شائد کم از کم ایم ایم اے کے حوالے سے سابقہ حالات کی طرح نہ ہو۔ایم ایم اے کی جانب سے ٹکٹوں کی تقسیم پر شور اٹھا، ضلعی ناظم معفرت شاہ سے منسوب بیانات اور اقدامات رپورٹ ہوئے۔ پھر اپر چترال میں ایم ایم اے کے گڑھ موڑکہو سے عوامی نیشنل پارٹی کے امیدوار سردار احمد میدان میں آئےجن کو کمیونٹی کا ووٹ مل سکتاہے اوران کی برادری زیادہ تعداد میں موڑکہو میں رہتی ہے اور وہ سب ایم ایم اے کے ووٹر ہیں۔ انتخابی سیاست کے ماہرین کے مطابق وہ ایم ایم اے کے کم ازکم چھ ہزار ووٹ توڑسکتے ہیں۔
تحریک انصاف جو کہ خفیہ رپورٹس کے مطابق دوسری پوزیشن پر قائم ہے کا ذکر سب سے دلچسپ ہے۔ 2013ء میں پی ٹی آئی کو قومی اسمبلی سے 24 ہزار سے اوپر لوگوں نے ووٹ دیا جبکہ صوبائی اسمبلیوں کے امیدواروں کو لگ بھگ 16 ہزار ووٹ ملے۔ پی کے 90 سے رحمت غازی کو 7787 جبکہ پی کے 89 سے حاجی سلطان کو 8184 ووٹ نصیب ہوئے۔ اب عبدالطیف کو پڑنے والے مزید 8 ہزار ووٹ کہاں گئے اور وہ پارٹی کے صوبائی امیدواروں کو کیوں نہ ملے، اور کیا لطیف کو پڑنے والے ووٹوں کی تعداد میں اضافہ ہوا ہے یا کمی آئی ہے، اس سے فیصلہ ہوگا کہ انتخابی فیصلہ کس قسم کا آئے گا۔ اس وقت صورتحال بتاتی ہے کہ لوئر چترال میں پی ٹی آئی میں صوبائی امیدوار اسرا صبور کی وجہ سے اضافہ ہوا تو پی ٹی آئی کو جیت مل سکتی ہے لیکن کہا یہ جارہا ہے کہ لٹکوہ سے اسرار صبور کو ملنے والا ووٹ قومی اسمبلی میں لطیف کو حاصل نہیں ہوگا اور وہ لٹکوہ سے تعلق رکھنے والے سلیم خان کے حصے میں آئے گا۔ جبکہ اسرار صبور کی پوزیشن اپر چترال میں کافی مبہم ہے۔ علاقہ یارخون اور لاسپور میں پی ٹی آئی کی پوزیشن میں بہتری کی رپورٹس آرہی ہیں لیکن حاجی غلام محمد کا ووٹ ٹوٹ کر پی ٹی آئی کے حصے میں آنا کافی مشکل ہے۔
اس جائزے سے معلوم ہوتا ہے کہ چاروںپارٹیوں(ن لیگ، ایم ایم اے، پی ٹی آئی، پیپلز پارٹی) کے امیدواروں کو 30، 30 ہزار ووٹ ملنے کا امکان ہے البتہ جیت اُس کے حصے میں آئے گی جسے 30 ہزار سے زائد ووٹ ملیں گے اور ووٹ پڑنے کی شرح سابقہ الیکشنز کے مطابق رہی تو ایم ایم اے کی پوزیشن بقول خفیہ اداروں کے کافی مستحکم ہے کیونکہ صرف ایم ایم اے کے مجموعی ووٹوں کی تعداد 30 ہزار سے زیادہ ہے۔


شیئر کریں: