Chitral Times

Mar 28, 2024

ﺗﻔﺼﻴﻼﺕ

دیوانوں کی باتیں۔۔۔۔۔۔۔ بچوں پر جسمانی تشدد اور حکومت کی بے حسی…. شمس الحق قمر ؔ گلگت

Posted on
شیئر کریں:

آج دنیا کی سب سے دل خراش خبر سماجی میڈیا میں جگہ پاکر عالم انسانیت کو ریزہ ریزہ کر گئی ۔ پاکستان میں رونما ہونے والے تمام کالی خبریں ایک طرف لیکن صوبہ سند ھ میں کراچی کےایک مقامی سکول میں ایک انسان نما درندے کی پھول جیسے بچوں پر ظلم و تشدد کی دل دہلا دینے والی خبر ایک طرف ۔ استاد نما درندے کی معصوم بچوں پر ظلم تشدد کی حرکی تصاویر دیکھ کر ضبط مشکل ، برداشت ناممکن اور صبر کا پیمانہ لبریز ہو جاتاہے ۔ میرا جیسا ہزاروں میل دور بیٹھا ہوا انسان حکومت وقت کی بے بسی و بے حسی پر ماتم کے علاوہ اور کر بھی کیا سکتا ہے ۔ لیکن ہم اگر مصمم ارادہ کر لیں تو اپنے قلم کے زور سے ایسے تمام وحشیوں کے ساتھ مرتے دم تک جنگ لڑ سکتے ہیں اور اُس وقت تک لڑیں سکتے ہیں جب تک کہ یہ جاہل لوگ جیل کے سلاخوں کے پیچے سیسکیاں لیتے ہوئے نظر نہ آئیں ۔ ویڈیو میں دکھائے جانے والے ظلم کا منظر کچھ اس طرح سے ہے کہ کراچی میں کسی پرائیوٹ سکول کا ایک کمرہ جماعت ہے اُسی کمرہ جماعت میں ایک درندہ ہاتھ میں ڈنڈا لئے کھڑا ہے ۔ سامنے بے گناہ اور معصوم بچے سہمے ہوئے ہیں اور یہ درندہ چیخیں مارتے ہوے نوزائیدہ پھولوں پر ڈندوں کی بارش برساتا ہے ۔ کم سن بچے بالا دست دشمن کے سامنے بےبس، مجبور اور لاچار ہیں ۔ ان بچوں کی عمریں چار سال سے پانچ سال کے درمیاں ہیں ۔ یہ درندہ اُن کے ریشم کی مانند باریک بازوں کو اپنے مظبوط ہاتھوں سے زور سے پکڑ کر اُن کے پھول جیسے نازک ہتھیلیوں پر ڈنڈوں کی یورش کرتا ہے اور گلاب کی پنکھڑی جیسے ملائم گالوں کو اپنے نجس پنجوں سے پکڑ پکڑ کر زمین پر پٹخ دیتا ہے ۔ ایسا لگتا ہے جیسے کسی معصوم پرندے کے کھونسلے پر سنانپ کا یلغار ہوا ہو ۔کمزور دل والے انسان اگر یہ ویڈیو ملا حظہ کریں گے تو شاید برداشت نہیں کر پائیں گے ۔
دنیا کی ترقی یافتہ ملکوں میں جسمانی سزا نا قابل تلافی جرم کے زمرے میں آتی ہے ۔ بچوں پر جسمانی تشدد چاہے والدین کی طرف سے ہو یا اساتذہ کی طرف سے ، پولیس کو شکایت ملنے پر سخت قانونی کار روائی عمل میں لائی جاتی ہے جس میں بھاری جرمانے کے ساتھ ساتھ قید و بند کی صعوبتیں بھی شامل ہیں ۔ یہ سزائیں صرف سزا برائے سزا کے لئے نہیں ہوتیں ہیں بلکہ ان کے پیچے زندگی کے عظیم فلسفوں کی گھتیاں سلجھانے کے عوامل کار فرما ہوتے ہیں ۔ ماہرین نفسیات اور بچوں کے موضوعات کے محققین کے مطابق ایسے افراد کیشخصیت میں تشدد پسندی پائی جاتی ہے جنہیں زندگی کے ابتدائی سالوں میں ذہنی و جسمانی اذیت کا نشانہ بنایا گیا ہو۔ وہ بیوی بچوں پر تشدد کرنے کے علاوہ مختلف قسم کے جرائم میں ملوث ہو جاتے ہیں۔ ۔ زیادہ تر خودکشیوں کا رجحان بھی انہی لوگوں میں دیکھنے کو ملتا ہے جنہیں بچپن میں کسی وجہ سے ذہنی یا جسمانی اذیتوں کا سامنا رہا ہو۔ آج ہمارے ملک میں جن سماجی مسائل سے ہم دوچار ہیں ان سب کے پیچھے بچپن کی تربیت کا فقدان نظر آتا ہے ۔ کراچی کے ’’ آسیب زدہ ‘‘ سکول میں پیش آنے والے واقعے کے نتائج اب نہیں بلکہ بیس سال بعد ابرآمد ہوں گے جب یہ بچے عملی زندگی میں قدم رکھیں گے ۔
ہم حکومت سند ھ کی اعلی عدالت سے اپیل کرتے ہیں کہ وہ جلداز جلد اس ظلم کا از خود نوٹس لے اور متاثرہ بچوں کا طبی معائنہ کے بعد ملک کے کسی بڑے ماہر نفسیات کے سپرد کیا جائے تاکہ وہ ان سہمے ہوئے نو نہالوں کے دل سے خوف و ہراس کو ذائل کرنے کی تراکیب بتا دے اور بہتر علاج کرے ۔ہمیں حیرت اس بات پر ہے کہ والدین اپنے بچوں کو کسی سکول میں داخل کرنے سے قبل اُس سکول کے بارے میں مکمل معلومات کیوں حاصل نہیں کرتے ۔ کیوں ایسا ہوتا ہے کہ والدین اپنی آنکھیں بند کر کے اپنا مستقبل جنگلی جانوروں کے حوالہ کر جاتے ہیں ۔ ہم اپنے آس پاس دیکھتے ہیں کہ آجکل ہر گلی کوچے میں بے روزگار لوگوں نے سکول کھول رکھے ہیں ۔ یہ بھی نہیں معلوم کہ یہ اپنے ان دکانوں کو کن اداروں کے ساتھ رجسٹرڈ کرواتے ہیں اور کن تعلیمی پالیسیوں کے تحت رجسٹرڈ کرتے ہیں اور پھر اُن دکانوں میں بیٹھ کر اور کیا کیا کرتے ہیں ، یہ بہت بڑا سوال ہے ؟ یہ جو چاروں صوبوں میں محکمہ تعلیم کے نام نہاد وزرا اپنی وزارتوں پر اژدھے کی مانند بیٹھے ہوئے ہیں کیا ان کی زمہ داریوں میں حرام کھانے کے علاوہ اور کوئی فرض شامل نہیں ہے ۔ کیا آج کا واقعہ حکومت کے ان نام نہاد زمہ دار لوگوں کے ماتھوں پر کلنک کا داغ نہیں ہے ۔ کیا اُس صوبے کا سکرٹری برائے تعلیم دنیا کو منہ دکھانے کے قابل رہاہے ۔ اِس دنیا میں یہ لوگ حیلہ بہانے سے تو کام لیتے ہیں لیکن کیا گوشت پوست کے انسانی بدن سے اتر جانے کے بعد انسان کی زندگی ہمیشہ ہمیشہ کے لئے نابود ہو جاتی ہے کیا کوئی اور زندگی نہیں ہے کہ جس میں ہم سے ہماری کار گزاریوں کی جواب طلبی ہو ؟ ۔ ملک کے ظالم ذمہ دار لوگوخدا سے ڈرو ! آپ کو معلوم ہے کہ کیا درست اور کیا غلط ہے لیکن آپ رسوا ہو چکے ہو اس لئے کچھ نہیں کر سکتے ۔ دنیا میں کونسا ملک ایسا ہے جہاں اللہ کی مطلق العنایت کا تصور بھی ہو اور نمرود ، شداد اور فرعوں بھی دندناتے پھریں ۔
سکولوں میں جسمانی سزا کے حوالے سے عمومی خیال یہ ہے کہ اس سے بچے کے طرز عمل کی اصلاح ہوتی ہے ۔ لیکن تحقیق یہ بتاتی ہے کہ بچپن کی جسمانی سزا سے باغی اولاد اور باغی قوم پنپتی ہے ۔ کیا طرز عمل کی اصلا ح کے لئے مار پٹائی کے علاوہ کوئی اور طریقہ موجود نہیں ہے ؟ ہم مختصرا ً حکومت سندھ سے یہی اپیل کریں گے کہ اس جہنمی شیطان شخص کو سر بازار سزا دی جائے تاکہ ہمیشہ ہمیشہ کے لئے معصوموں پر تشدد کی بیخ کنی ہو ۔ ورنہ اس واقعے کی تمام ترزمہ داری سندھ حکومت اور خصوصی طور پر وزارت تعلیم اور محکمہ تعلیم پر عائد ہوگی ۔

bachon ki saza children punishment


شیئر کریں: