Chitral Times

Mar 19, 2024

ﺗﻔﺼﻴﻼﺕ

قومی سلامتی کو درپیش چیلنج….. محمد شریف شکیب

Posted on
شیئر کریں:

ملک میں خوف و ہراس کے ماحول میں انتخابی مہم جاری ہے۔پولنگ کی تاریخ 25جولائی مقرر کی گئی ہے۔ آنے والے دس دن بہت اہم ہیں۔ گذشتہ ایک ہفتے کے دوران خیبر پختونخوا اور بلوچستان میں دہشت گردی کے چار بڑے واقعات رونما ہوئے ہیں جن میں دو انتخابی امیدواروں سمیت 165افراد جاں بحق اور 230زخمی ہوئے ہیں۔ پہلا دھماکہ پشاور کے علاقہ یکہ توت میں عوامی نیشنل پارٹی کے انتخابی اجلاس کے دوران ہوا ۔ جس میں خیبر پختونخوا اسمبلی کے حلقہ پی کے 78سے اے این پی کے امیدوار ہارون بلور سمیت بائیس افراد لقمہ اجل بن گئے جبکہ 62افراد زخمی ہوئے۔ خیبر پختونخوا کے جنوبی ضلع بنوں میں دو دھماکے ہوئے۔ ایک دھماکے میں انتخابی امیدوار سمیت سات افراد زخمی ہوئے دوسرے دھماکے میں متحدہ مجلس عمل کے امیدوار اور سابق وزیر اعلیٰ اکرم خان درانی کے قافلے کو نشانہ بنایاگیا جس میں چار افراد جان بحق اور 31زخمی ہوگئے۔ اسی روز شام کو بلوچستان کے علاقہ درین گڑھ مستونگ میں بلوچستان عوامی پارٹی کے حلقہ بی اے 35کے امیدوار سراج رئیسانی کے انتخابی جلسے کو خود کش حملے کا نشانہ بنایا گیا جس میں سراج رئیسانی سمیت 140افراد جاں بحق اور 130سے زیادہ زخمی ہوئے۔ملک میں دہشت گردی کے خلاف ایک درجن سے زیادہ آپریشن کئے گئے حکومت اور سیکورٹی فورسز کا کہنا تھا کہ دہشت گردوں کی کمر توڑ دی گئی ہے ۔اور ایسا نظر بھی آرہا تھا۔ سانحہ آرمی پبلک سکول کے بعد دہشت گردی کا کوئی بڑا واقعہ رونما نہیں ہوا تھا۔ پشاور، قبائلی علاقوں ، کراچی، پنڈی، لاہور اورملک کے دیگر بڑے شہروں میں انتخابی مہمات پرامن طور پرجاری تھیں اس دوران اچانک خود کش حملے اور بم دھماکے شروع ہوئے۔ جس کی مختلف حلقوں کی طرف سے مختلف توجیہات پیش کی جارہی ہیں۔بنوں دھماکے میں بال بال بچ جانے والے سابق وزیراعلیٰ اکرم درانی کہتے ہیں کہ متعلقہ حکام سب کچھ جانتے ہیں انہیں یہاں تک معلوم ہے کہ دہشت گردوں نے کس رنگ کے کپڑے پہن رکھے ہیں لیکن وہ انہیں قابو کرنے سے قاصر ہیں۔بلوچستان کے علاقہ مستونگ میں جو سانحہ رونما ہوا ہے اس میں بھارت کے ملوث ہونے کا سو فیصد نہیں بلکہ پانچ سو فیصد امکانات ہیں۔ دھماکے میں شہید ہونے والے سراج رئیسانی کی تصاویر میڈیا میں وائرل ہوگئی ہیں جس میں انہیں بھارتی پرچم کو پیروں تلے روندتے دکھایا گیا ہے۔ تحریک انصاف کے قائد عمران خان کا کہنا ہے کہ عجیب اتفاق ہے کہ شریف خاندان پر جب بھی برا وقت آتا ہے۔ ملک میں پے درپے دہشت گردی کے واقعات ہوتے ہیں۔13جولائی کو سابق وزیر اعظم نواز شریف اور ان کی صاحبزادی احتساب عدالت کی طرف سے نااہلی، قید اور جرمانے کی سزائیں سنائے جانے کے بعدگرفتاری دینے جب وطن واپس آرہے تھے تو ملک بھر سے لیگی کارکنوں کو لاہور پہنچنے کی کال دی گئی۔ابھی نواز شریف کا طیارہ پاکستان کی حدود میں داخل بھی نہیں ہوا تھا کہ مستونگ میں دہشت گردی کا بڑا اور افسوس ناک واقعہ رونما ہوا۔ لیکن میڈیا نے مستونگ کے خونین واقعے کو یکسر نظر انداز کردیا اور سب کی توجہ سابق وزیراعظم کی بیٹی سمیت وطن واپسی، گرفتاری اور مظاہروں پر مرکوز تھی۔مرکز اور صوبوں میں نگران حکومتوں کی طرف سے دہشت گردی کے واقعات پر روایتی بیانات جاری کئے گئے کہ ’’ کسی کو انتخابات کے موقع پر امن و امان خراب کرنے کی اجازت نہیں دی جائے گی۔ دہشت گردوں کے ساتھ آہنی ہاتھوں سے نمٹا جائے گا۔وغیرہ وغیرہ‘‘دہشت گردی کے ان پے درپے واقعات کے بعد چند سوالات عوام کے ذہنوں میں مچلنے لگے ہیں متعلقہ حکام ہی ان سوالات کا جواب دے سکتے ہیں۔اور وہ سوالات یہ ہیں کہ دہشت گردی کے واقعات صرف خیبر پختونخوا اور بلوچستان جیسے چھوٹے ، پسماندہ اور دہشت گردی سے سب سے زیادہ متاثرہ صوبوں میں ہی کیوں ہورہے ہیں۔ان حملوں میں قوم پرست اور مذہبی جماعتوں کو ہی کیوں نشانہ بنایاجارہا ہے۔فوج ، پیراملٹری فورسز اور پولیس کی خدمات حاصل ہونے کے باوجود نگران حکومتیں انتخابی امیدواروں کو تحفظ فراہم کرنے میں کیوں ناکام ہورہی ہیں۔دہشت گردی کی یہ لہر انتخابات کو التواء میں ڈالنے کی سازش تو نہیں؟۔ اگر ایسا ہے تو اس سے کس کو فائدہ ہوگا۔ملک کی سیاسی قوتیں دہشت گردی جیسے قومی مسئلے پر ایک پلیٹ فارم پر کیوں نظر نہیں آتیں۔ کیونکہ اس مسئلے کا براہ راست تعلق قومی سلامتی سے ہے۔ جس کے مقابلے میں سیاسی شخصیات، انتخابات وغیرہ ثانوی حیثیت رکھتے ہیں۔


شیئر کریں: