Chitral Times

Mar 28, 2024

ﺗﻔﺼﻴﻼﺕ

ہم سے قاتل کا ٹھکانہ ڈھونڈا نہیں جاتا….. پیامبر……قادر خان ہوسف زئی

Posted on
شیئر کریں:

2018کے عام انتخابات میں جس موضوع و امکانات کو نظرانداز کیا گیا، وہ دہشت گردی کے ممکنہ حملوں کے حوالے سے ہے۔ الیکٹرونک اور پرنٹ میڈیا میں عام انتخابات کے حوالے سے ایسا ماحول بنایا گیا کہ جیسے ملا فضل اللہ کی ہلاکت کے بعد دہشت گردی کا کوئی واقعہ رونما نہیں ہوگا، لیکن جہاں سیاسی جماعتیں عام انتخابات کے حوالے سے اپنی کارنر میٹنگز اور لائحہ عمل میں مصروف تھیں، وہیں سیکیورٹی انتظامات کو مکمل طور پر نظرانداز کیا جارہا تھا۔ یہی وجہ ہے کہ شہید بشیر بلور کے بیٹے بیرسٹر ہارون بلور بھی دہشت گردی کا نشانہ بن گئے۔ دہشت گردی کے حملے میں22 سے زائد قیمتی جانوں کے ضیاع کے ساتھ 60 کے قریب کارکنان بھی زخمی ہوئے۔ عوامی نیشنل پارٹی کو ایک مرتبہ پھر دہشت گردی کا نشانہ بنا کر شدت پسندوں نے اپنی انتہا پسند مہم کا بھی آغاز کردیا ہے۔ پُرامن انتخابات کاانعقاد قانون نافذ کرنے والے اداروں کے لیے ایک بڑا چیلنج ہے۔ عام انتخابات سے دو ہفتے قبل دل خراش واقعے نے گزشتہ انتخابات کے افسوس ناک واقعات کی تلخ یادیں تازہ کردیں۔ عدالت عظمیٰ کے چیف جسٹس نے تمام غیر متعلقہ افراد سے سیکیورٹی واپس لینے اور تمام صوبوں کے آئی جیز کو پولیس اہلکار واپس بلانے کا حکم دیا تھا۔ عدالتی حکم کے بعد حکومت نے سیاسی شخصیات سے سیکیورٹی واپس لے لی تھی، 23 اپریل2018 کو عوامی نیشنل پارٹی کے سربراہ اسفندیار ولی نے ردعمل دیتے ہوئے کہا تھا کہ ’’دہشت گردوں کی ہٹ لسٹ پر موجود لوگوں سے سیکیورٹی واپس لینا غیر دانش مندانہ فیصلہ ہے، اے این پی نے دہشت گردی کے خلاف بھرپور جنگ لڑی ہے اور آج بھی وہ دہشت گردوں کی ہٹ لسٹ پر ہے، اے این پی کے کسی کارکن کو بھی نقصان پہنچا تو چیف جسٹس کے خلاف ایف آئی آر درج کرائیں گے۔‘‘ اسی طرح سابق وزیر داخلہ سینیٹر رحمان ملک نے سینیٹ کو بتایا کہ ’’نیکٹا کی رپورٹ میں ہے 6 سیاسی جماعتوں کے سربراہوں پر قاتلانہ حملے ہوسکتے ہیں، ان میں عمران خان، اسفندیار ولی، نواز شریف سمیت پیپلز پارٹی، جمعیت علماء اسلام اور اے این پی کے رہنما شامل ہیں، سیاسی جماعتوں کے سربراہوں کو فول پروف سیکیورٹی دی جائے، اگر حملے ہوتے ہیں تو ذمے دار اُس صوبے کا وزیراعلیٰ ہوگا۔‘‘ سیاسی رہنماؤں نے واقعے کی مذمت کے ساتھ سانحے کو عام انتخابات کے خلاف سازش قرار دیا۔
پُرامن انتخابات پر سوالیہ نشان کھڑا ہوچکا ہے کہ کیا قانون نافذ کرنے والے ادارے حالات حاضرہ کے سب سے بڑے چیلنج کا مقابلہ کرسکیں گے۔ میرا ذاتی خیال ہے کہ نگراں حکومت کو اُسی وقت ہوش میں آجانا چاہیے تھا جب لیاری دورے میں پاکستان پیپلز پارٹی کے چیئرمین بلاول بھٹو زرداری کے قافلے پر سوچے سمجھے منصوبے کے تحت شرپسندی کی گئی۔ عدلیہ کے حکم پر ہٹ لسٹ پر موجود سیاسی شخصیات کی مناسب سیکیورٹی کے واضح احکامات نہیں دیے گئے تھے۔ جس سبب دہشت گردوں کے لیے ہٹ لسٹ میں موجود اہم شخصیات سافٹ ٹارگٹ بن گئیں۔ اب ہمیں یہ تو نہیں معلوم کہ اسفندیار ولی 23 اپریل کو دیے گئے بیان کے مطابق کوئی قانونی راستہ اختیار کرتے ہیں یا پھر 2008 سے لے کر 2013 تک دہشت گردوں کی اولین فہرست میں نشانہ بننے والوں کی طرح صرف مغفرت کی دعا کرتے ہیں۔ عدالت عظمیٰ کے احکامات پر عمل درآمد کرنا ریاست کا کام تھا، اس لیے انہوں نے اپنا کام کیا۔ اب نگراں حکومت کی جانب سے افسوس کے بیان کی کوئی اہمیت اس لیے نہیں رہ جاتی کیونکہ الیکشن کمیشن نے یکہ قوت کے واقعے کا ذمے دار نگراں حکومت کو ٹھہراتے ہوئے حملے کو سیکیورٹی اداروں کی ’’کمزوری‘‘قرار دیا ہے۔ نگراں حکومتوں نے بڑے پیمانے پر جہاں بیورو کریسی میں اکھاڑ پچھاڑ کے ساتھ سیکیورٹی اداروں، پولیس کے محکموں میں اوپری سطح سے لیکر ایس ایچ او تک کو تبدیل کردیا۔ نگراں حکومت نے سرکاری و نجی املاک سے انتخابی امیدواروں کے بینرز، جھنڈے اور پینا فیلکس تک اتار دیے، لیکن دوسری جانب دیکھنے میں آیا ہے کہ کارنرز میٹنگز اور انتخابی ریلیوں کی سیکیورٹی کا مناسب انتظام نہیں کیا گیا۔ انتخابی مہم میں مصروف امیدواروں کو نوٹس جاری کیے جاتے رہے کہ وہ اپنی انتخابی مہم سے تحریری طور پر آگاہ کریں، لیکن دوسری جانب یہ بھی دیکھنے میں آیا کہ نفری کی کمی کی وجہ سے انتخابات میں حصہ لینے والوں کے تمام پروگراموں کی سیکیورٹی کا بندوبست کرنا ممکن نہیں۔ پاکستان میں افواہوں اور قیاس آرائیوں کے سائے میں عام انتخابات کا بروقت انعقاد نہ ہونے کے شکوک کی وجہ سے انتخابی ماحول نہیں بن پارہا تھا کہ دہشت گردوں کی جانب سے ہارون بلور کی شہادت کے بعد کئی اہم رہنماؤں نے اپنی سرگرمیاں محدود کردی ہیں۔2013 میں جس طرح اے این پی کو نشانہ بنایا گیا تھا، وہی خدشات اب دوبارہ ابھر کر سامنے آئے ہیں اور اے این پی کی قیادت ہی نہیں بلکہ پاکستان پیپلز پارٹی بھی انتہائی محتاط ہوگئی ہے۔ قیمتی و نایاب جانوں کی قربانیاں ایک ناقابل فراموش باب ہے۔ اے این پی نے دہشت گردی کے خلاف جتنی قیمتی جانوں کی قربانی دی، اس کی مثال نہیں ملتی۔ اسی طرح پاکستان پیپلز پارٹی بھی ناقابل تلافی جانی نقصان کا پہاڑ اٹھا چکی ہے۔
اے این پی اور پی پی پی کے لیے اپنی قیادتوں کا تحفظ اہمیت اختیار کرگیا ہے۔ دہشت گردی کی تازہ لہر سے قبل عالمی اسٹیبلشمنٹ کی جانب سے انتخابات ملتوی کرانے کی سازش کا پہلے ہی انکشاف کیا جاچکا ہے۔ دوسری جانب شدت کے ساتھ تحفظات بھی سامنے آئے ہیں کہ ایک سیاسی جماعت کے لیے مکمل طور پر میدان کھلا رکھا جارہا ہے۔ جہاں جہاں مذکورہ سیاسی جماعت کو مشکلات کا سامنا ہے، وہاں اس کے لیے حالات سازگار کیے جارہے ہیں۔ یہ تاثر قائم ہونا بہت خطرناک نتائج سامنے لاسکتا ہے۔ راقم انہی صفحات پر تواتر کے ساتھ انتخابات کے حوالے سے خدشات کا اظہار کرچکا ہے کہ پاکستان کی بقا و سلامتی کے لیے ضروری ہے کہ ایسا ماحول نہ بننے دیا جائے کہ پاکستانی عوام کا اعتماد ریاستی اداروں سے اٹھ جائے، لیکن بدقسمتی سے عوام کے تحفظات کو دُور کرنے کے لیے واضح حکمت عملی کا فقدان نظر آتا ہے۔
جس وقت آپ یہ کالم پڑھ رہے ہوں گے۔ ایک بار پھر سیاسی ہیجان خیزی بام عروج پر ہوگی۔ مسلم لیگ (ن) کے سربراہ نواز شریف اور ان کی بیٹی مریم نواز وطن واپس آرہے ہیں۔ (ن) لیگ نے انتخابی امیدواروں کو ہدایت دی ہے کہ وہ استقبالی ریلی میں شرکت نہ کریں۔ اسی طرح میڈیا میں کیپٹن (ر) صفدر کی گرفتاری کی تشہیر پر اعتراضات دائر کرنے کے بعد نواز شریف اور مریم نواز کی میڈیا کوریج سے منع کیا جارہا ہے۔ احتساب عدالت نے بھی میڈیا ہاؤسز کوکہا ہے کہ وہ سزا یافتہ افراد کو کوریج نہ دیں۔
عام انتخابات جس ڈگر پر جارہے ہیں، اس کا انجام حوصلہ افزا نہیں سمجھا جارہا۔ اس موقع پر انتخابی مہم میں مصروف امیدواران سے اپیل ہے کہ اپنی رابطہ مہم کے دوران نقل وحرکت میں حفاظتی تدابیر اختیار کریں اور کسی قسم کی کوتاہی نہ کریں۔ قانون نافذ کرنے والے اداروں کو حساس مقامات پر جانے سے قبل مکمل طور پر آگاہ کریں۔ سیاسی و مذہبی جماعتوں کے رہنماؤں کی حفاظت کے لیے کارکنان بھی مشکوک افراد پر نظر رکھیں۔ دیکھنے میں یہی آیا ہے کہ انتخابات میں حصہ لینے والوں کو ووٹ کے حصول کے لیے اپنی رابطہ مہم میں ایسے مقامات پر بھی جانا پڑتا ہے، جہاں وہ اس سے قبل کبھی نہیں گئے تھے۔ اسی طرح شناسا اور ہر عام و خاص فرد سے انہیں ملنے کے لیے تمام پروٹوکول ایک طرف رکھنا پڑتا ہے۔ قانون نافذ کرنے والے ادارے تمام امیدواروں کو سیکیورٹی فراہم نہیں کرسکتے۔ یقینی طور پر یہ ناممکن ہے۔ الیکشن کمیشن کا قانون نافذ کرنے والے اداروں کو مورد الزام ٹھہرانا زمینی حقائق کے برخلاف ہے۔ دہشت گردوں کی جانب سے ایک افسوس ناک و ناقابل تلافی نقصان پہنچا ہے۔ نگراں حکومت کو عام انتخابات کو سبوتاژ کرنے کی سازش کو ناکام بنانے کے لیے فول پروف سیکورٹی انتظامات کرنے کی ضرورت ہے۔ عام انتخابات کو پُرامن ماحول میں منعقد کرانے کے لیے ٹھوس اقدامات کی ضرورت ہے۔ کسی سیاسی جماعت کو اندرونی و بیرونی سہولت کاروں کی مدد سے اقتدار میں لانے کی کوشش پاکستان کی بقا و سلامتی کے لیے نیک شگون نہیں۔ ہم کب تک پاکستان کا خون کرنے والوں کو تختہ? دار پر لانے میں ناکام رہیں گے، کیا وجہ ہے کہ ہم سے قاتل کا ٹھکانہ نہیں ڈھونڈا جاتا۔


شیئر کریں: