Chitral Times

Mar 28, 2024

ﺗﻔﺼﻴﻼﺕ

شہر پشاور پھر لہولہو ………..محمد شریف شکیب

Posted on
شیئر کریں:

پشاور پھر لہو لہو ہوگیا۔ یکہ توت میں عوامی نیشنل پارٹی کے انتخابی اجلاس کے دوران خود کش دھماکے میں ہردلعزیز سیاسی رہنما بیرسٹر ہارون بلور سمیت 20افراد شہید اور 62زخمی ہوگئے۔ پاکستان کی 71سالہ سیاسی تاریخ میں دو ہی خاندان ایسے ہیں جنہوں نے ملک میں جمہوریت کی خاطر سب سے زیادہ جانی قربانیاں دیں۔ ان میں بھٹو خاندان پانچ شہادتوں کے ساتھ سرفہرست اور پشاور کا بلور خاندان تین شہادتوں کے ساتھ دوسرے نمبر پر ہے۔ 1997میں انتخابی سرگرمی کے دوران ہی غلام احمد بلور کے جوانسال صاحبزادے شبیر بلور کو گولیوں سے چھلنی کردیا گیا۔2012میں قصہ خوانی کے علاقے میں انتخابی مہم کے دوران بشیر احمد بلور خود کش دھماکے کا نشانہ بن کر شہید ہوگئے۔ اور بہادر باپ کی شہادت کے ساڑھے پانچ سال بعد بیرسٹر ہارون احمد بلور بھی انتخابی اجلاس کے دوران خود کش حملے کا نشانہ بن گئے۔ اس بھری دنیا میں چند ہی لوگ ایسے ہوتے ہیں جو ہر کسی کو بھلے لگتے ہیں۔ جو آپ کو اچھا لگے۔اس کے بارے میں یہ نہیں سوچا جاتا کہ اس کا سیاسی نظریہ کیا ہے۔ وہ کس فرقے اور مسلک سے تعلق رکھتا ہے اس کا تعلق کسی نسلی اور لسانی گروپ سے ہے ۔ محبت اور عقیدت کے سامنے یہ ساری باتیں بے معنی ہوجاتی ہیں۔ ہارون بلور بھی ایسی ہی ہردلعزیز شخصیت کے مالک تھے۔ وہ اعلیٰ تعلیم یافتہ تھے۔ انتہائی نرم خو ، کم گواور خوبرو نوجوان تھے۔ ان کی زبان سے کوئی تلخ جملہ کسی نے نہیں سنا۔ ان کے الفاظ سے شفقت اور محبت ٹپکتی تھی۔ٹاون ناظم کی حیثیت سے انہوں نے اہل پشاور کی جو بے لوث خدمت کی۔ اس کا اعتراف ان کے کٹر مخالفین بھی کرتے ہیں۔ انہیں پورے ملک میں سب سے فعال ناظم ہونے کا اعزاز بھی حاصل رہا ہے۔ہارون بلورنے پشاور کے امن اور جمہوریت کی خاطر اپنی جان کا نذرانہ پیش کرکے اے این پی کے سینے میں شہادت کا ایک اور تمغہ سجادیا ہے۔ اس جنگ میں عوامی نیشنل پارٹی نے جو قربانیاں دی ہیں وہ تاریخ میں سنہرے حروف سے لکھی جائیں گی۔ہارون کی کسی سے ذاتی دشمنی نہیں تھی۔ جس خود کش حملہ آور نے انہیں نشانہ بنایا۔ اس نے پہلے کبھی ہارون بلور کو دیکھا بھی نہیں ہوگا۔خفیہ ایجنسیوں نے انتخابی مہم کے دوران بعض سیاسی رہنماوں کو ٹارگٹ کئے جانے سے متعلق الرٹ پہلے ہی جاری کردیا تھا۔خفیہ اداروں کے پاس یہ اطلاعات بھی ہوتی ہیں کہ کتنے دہشت گرد کس کس شہر میں داخل ہوچکے ہیں اور وہ کس کو کہاں نشانہ بنائیں گے۔ یہ درست ہے کہ جو رات قبر میں گذرنی ہے وہ رات اپنے بستر پر نہیں گذاری جاسکتی۔لیکن احتیاطی تدابیر اختیار کرکے زیادہ جانی نقصان سے بچا جاسکتا تھا۔ بعض دوستوں کا کہنا ہے کہ ہمارے کچھ دشمن ایسے ہیں جنہیں ہمارے مخالفین نے ہم پر مسلط کردیا ہے اور کچھ سانپ ہم نے خود بھی اپنی آستینوں میں پال رکھے ہیں ۔ حبیب جالب نے بھی اسی کی طرف اشارہ کیا تھا کہ ’’اٹھا رہا ہے جو فتنے میری زمینوں میں۔۔ وہ سانپ ہم نے ہی پالا ہے آستینوں میں۔۔۔ کہیں سے زہر کا تریاق ڈھونڈنا ہوگا۔۔ جو پھیلتا ہی چلا جارہا ہے سینوں میں۔۔۔ یہی تو وقت ہے آگے بڑھو خدا کے لئے۔۔ کھڑے رہوگے کہاں تک تماشہ بینوں میں‘‘ ۔سانحہ یکہ توت کے بعد قانون نافذ کرنے والے اداروں کے ساتھ سیاسی جماعتوں کو بھی اپنے پروگرامات کے شیڈول پر نظر ثانی کرنی چاہئے۔ جب خطرہ موجود ہے تو دانستہ طور پر خطرہ مول لینا کوئی دانشمندی یا بہادری نہیں۔ پشاور خود کش دھماکے سے یہ ثابت ہوگیا ہے کہ دہشت گردی ابھی جڑ سے ختم نہیں ہوئی۔ خطرات اب بھی ہمارے سروں پر منڈلارہے ہیں۔ اور جب تک امریکی فوج افغانستان میں موجود ہے اور بھارت کی افغان سرزمین پر سرگرمیاں جاری ہیں۔ پاکستان خصوصا خیبر پختونخوا میں پائیدار امن کے قیام کا خواب شرمندہ تعبیر نہیں ہوسکتا۔تاہم ہارون بلور، بشیر بلور، میاں راشد حسین سمیت دیگر شہداء کا خون رائیگاں نہیں جائے گا۔ دشمنوں کو شکست ضرور ہوگی۔ ہارون بلور نے شہادت کا بلند رتبہ پالیا۔اگرچہ انہوں نے حیات جاویداں پائی لیکن ہماری آنکھوں سے اوجھل ہوگئے۔ اس مرگ ناگہانی پر ہم یہی کہہ سکتے ہیں کہ’’ ہاں اے فلک پیر جواں تھا ابھی ہارون۔۔ کیا تیرا بگڑتا جو نہ مرتا کوئی دن اور۔‘‘


شیئر کریں: