Chitral Times

Mar 29, 2024

ﺗﻔﺼﻴﻼﺕ

ووٹر اور ووٹ کی حقیقت………….احتشام الرحمن چترال

Posted on
شیئر کریں:

الیکشن کے دن قریب آتے ہی یہ بحث چل نکلی ہے کہ کونسی پارٹی جیتے گی اور آپ کس پارٹی کو ووٹ ڈالیں گے؟ ووٹ امیدوار کی ذاتی خوبیوں کو دیکھ کے دینگے یا پارٹی منشور کو دیکھ کے پارٹی کو ووٹ ڈالیں گے؟ پاکستانی تناظر خاص کر کے چترال کی سیاست میں ان دونوں سوالوں کا جواب انتہائی پیچیدہ بھی ہے اور مشکل بھی۔

پورے پاکستان کے تناظر میں دیکھا جائے تو پاکستان تحریک انصاف اور مسلم لیگ نواز کا کانٹےدار مقابلہ ہونے کے چانسز ہیں۔ تقریبا تمام پارٹیوں نے اپنا منشور بھی پیش کر دیے ہیں۔ ان کو دیکھنے کے بعد پی ٹی آئی کا منشور کافی دلچسپ، نیا اور سنجیدہ بھی لگ رہا ہے۔ اس کے مقابلے میں دوسری جماعتوں کے منشور وہی دقیانوسی لگ رہے ہیں جبکہ نئے پاکستان والوں کا منشور ماڈرن بھی ہے اور اس میں فلاحی ریاست کے قیام کا عندیہ بھیدیا گیا ہے۔ لیکن کیا ان منشوروں کا قومی سیاسی نتائج پر کوئی اثر پڑے گا یا سٹیٹس کو برقرار رہے گا؟ ان باتوں کے جوابات دلچسپ بھی ہیں اور پیچیدہ بھی۔

اب ہم آتے ہیں چترال کی سیاست کی طرف: چترال میں کونسا امیدوار جیتے گا اور کونسے امیدوار میں وہ صلاحیتیں موجود ہیں جن کی بنیاد پر وہ ووٹ دینے کے قابل ہے؟ میں یہاں سیاسی جماعت کی بات نہیں کر رہا بلکہ امیدوار کی بات کر رہا ہوں کیونکہ پاکستان یا کسی بھی پارلیمنٹیرین سسٹم میں فرد کی اہمیت جماعت سے زیادہ ہوتی ہے۔ وہ کیوں زیادہ ہوتی ہے اسکا جواب اخر میں اپکے گوش گزار کرونگا۔

اناتول لیون اپنی کتاب ‘پاکستان اے ہارڈ کنٹری’ میں لکھتے ہیں: ‘پاکستانی سیاست اور معاشرت میں علاقہ، برادری، مذہب/فرقے اور رشتے داری کی اہمیت پارٹی سے زیادہ ہوتی ہے کیونکہ آپ کو عدالت، پولیس اور دوسرے معاملات میں ایک رستہ دار یا ایک برادری والے ایک ایم این اے یا ایم پی اے یا ایک وی سی ممبر ہی ایک پارٹی کی بنسبت زیادہ سپورٹ دے سکتا ہے۔ وہ لکھتے ہیں اسلئے دوسرے ملکوں کی نسبت پاکستان میں ادارے یا سیاسی جماعتیں اس سوچ کی وجہ سے صحیح اور جائز طریقے اپنآ کے وہ اپنے وہ جائز مقاصد حاصل نہیں کر سکتے ہیں جو وہ حاصل کرنا چاہتے ہیں’۔

ان تمام باتوں کے تناظر میں کچھ تلخ حقائق ہمارے سامنے آتے ہیں:

پہلی بات یہ کہ پاکستان خاص کر کے چترال میں ایک پارٹی سے زیادہ برادری اور رشتے داری کا پلڑا بھاری رہے گا۔

دوسری بات یہ کہ نئے پاکستان والے جتنے بھی اچھے منشور لے آئیں لیکن حقیقت یہی ہے انکا اثر ہماری سیاست یا ووٹ بنک پر نہیں پڑنے والا۔ اس کی کئی ایک وجوہات میں سے ایک وجہ ایک عام ووٹر کی سوچ ہے۔ اسکا یہ خیال ہے کہ اس کے نزدیک نہ ہی پی ٹی آئی کوئی اہمیت رکھتا ہے اورنہ ہی کوئی اور جماعت۔ نہ ہی کسی امیدوار کی تعلیم یافتہ ہونا یا اسکا نیک ہونا۔ اگر اہمیت رکھتا ہے تو یہ کہ وہ اسکی خوشی غمی میں شریک ہوتا ہے یا نہیں۔ اگر ایسا ہے تو چاہے وہ نامزد امیدوار ایک انگوٹھا چھاپ یا ایک کرپٹ ٹھیکہ دار یا کوئی ٹمبر مافیہ ہی کیوں نہ ہو وہ جیت جاتا ہے۔ اس کے نزدیک یہ بات اہمیت نہیں رکھتا کہ وہ ایک بڑی یونورسٹی کا گریجویٹ ہے یا ایک بہت بڑا ریٹائرڈ افسر ہے یا شاہی خاندان کا چشم و چراغ۔ اگر اہمیت رکھتی ہے تو یہ بات کہ اس امیدوار کا ‘تعلق’ اس ووٹر کے ساتھ کیسا ہے۔ ووٹ والے دن بھی کسی بوڑھے بزرگ کو گاڑی میں بٹھا کر پولنگ اسٹیشن تک لے جانے پر بھی اس ووٹر کی سوچ تبدیل ہو جاتی ہے۔

تیسری بات یہ کہ ایک قومی لیڈر کا اچھا ہونا یا اسکی پارٹی کا اصلاحاتی یا انقلابی منشور پیش کرنا صدارتی نظام میں با اثر ہو سکتا ہے لیکن پارلیمنٹیرین سسٹم میں نہیں ہو سکتا۔ خان صاحب بھلے ہی نیک اور قابل ہوں یا نواز شریف بھلے ہی کرپٹ اور نکمے ہوں یا جماعت یا ایم ایم اے کا مرکز میں حکومت بنانا بھلا ہی ایک خواب کیوں نہ ہو اسکا اثر ووٹر پر نہیں ہونے والا۔ ایک ووٹر یہی سوچے گا کہ چترال سے نامزد امیدوار کا اس کے ساتھ تعلق کیسا ہے؟ کیا وہ اسے عزت دیتا ہے؟ اسکا قانون سازی کے ساتھ کیا کوئی تعلق یا قانون سازی کی صلاحیت اس میں ہے کہ نہیں ان باتوں کے بارے میں ایک عام ووٹر سوچتا ہی نہیں ہے۔ بلکہ اس میں ان سے متعلق دماغ لڑانے کی صلاحیت ہی نہیں ہوتی ہے۔ اس کی وجہ ہمارا نظام اور جہالت ہے اوران دونوں کی وجہ علم اور انٹلیکٹ کی کمی ہے۔

چوتھی بات کا تعلق بھی تیسری بات سے ہے۔ ہاں ایک صورت میں یہ باتیں الٹ ہوتی اگر ہمارے ملک میں صدارتی نظام ہوتا اور کوئی نیا یا اصلاحاتی منشور پیش کرتا۔ چاہے وہ خان صاحب کی صورت میں یا بلاول یا نواز یا مولانا یا سراج لالہ یا پھر اسفندیار ولی کی صورت میں ہی۔ اس صورت میں اسکو پزیرائی بھی ملتی اور شاید کامیابی بھی۔ کیونکہ ایک ووٹر اپنا ووٹ استعمال کر کے مطمئن ہوتا کہ خان صاحب یا سراج لالہ کرپٹ نہیں ہیں۔ شریف کو بھی ووٹ دے کر مطمئن ہوتا کہ وہ ترقیاتی منصوبے کرتا ہے۔ وہ مولانا صاحب کو بھی منتخب کرتے وقت مطمئن ہوتا کہ وہ اسلام کا بول بالا کرے گا۔ ووٹر زرداری کو بھی ووٹ دے کر مطمئن ہوتا کہ پی پی پی ملازمین کے لئے ایک اچھا آپشن ہے۔ اسفندیار ولی کو ووٹ دے کر بھی مطمئن ہوتا کہ وہ پشتونوں کے حقوق کی جنگ لڑے گا۔ لیکن یہاں نظام الگ ہے اور اس نظام میں برادری، علاقہ اور مذہب/فرقہ کا پلڑا سیاسی جماعت کے نسبت بھاری رہتا ہے۔

ان تمام باتوں کے تناظر میں ایک بات واضح ہو جاتی ہے کہ جس جماعت کے نامزد امیدوار کی مظبوط ہونے کے لئے اسکی برادری، رشتے اور مذہب/فرقے مظبوط ہونا اہم ہے۔ ان کے ذریعے سے جیتنے کے چانسز زیادہ ہو جائیں گے۔ پاکستانی تناظر میں دیکھیں تو پنجاب کی سیاست اور اس میں کسی بھی سیاسی جماعت کی جیت ایک اہم رول ادا کرتا ہے۔ پنجاب کی ہم بات کریں تو اس میں ‘علاقہ’ والا فیکٹر آجاتا ہے اور اگے۔۔۔۔۔۔۔۔۔ آپ خود سمجھدار ہیں۔

نوٹ: یہ تمام باتیں زمینی حقائق اور ‘اناتول لیون’ کی کتاب پر مبنی باتوں پر مشتمل ایک طالب علم کی رائے ہے۔ اس میں اختلاف کی گنجائش موجود ہے۔ لیکن تلخ حقائق یہی ہیں۔ اور اگر کسی کیڑے مار سپرے والے محکمے نے کوئی سپرے نہیں کیا تو نتائج اسی سے ملتے جلتے ہی آئیں گے۔


شیئر کریں: