Chitral Times

Mar 29, 2024

ﺗﻔﺼﻴﻼﺕ

تیل کی قیمت بڑھانے کا جواز………. محمد شریف شکیب

شیئر کریں:

سپریم کورٹ نے پٹرولیم مصنوعات کی قیمتوں میں ایک ماہ کے دوران دو مرتبہ اضافے کا نوٹس لیتے ہوئے تیل کی درآمد میں بے قاعدگی کا خدشہ ظاہر کیا ہے اور معاملہ نیب کے حوالے کرنے کا عندیہ دیا ہے۔ عدالت عظمیٰ نے پاکستان اسٹیٹ آئل کے منیجنگ ڈائریکٹر کو ڈانتے ہوئے کہا کہ تمہیں ماہوار پنتالیس لاکھ روپے کی بھاری تنخواہ اور مراعات عوام کے ٹیکسوں سے دیئے جاتے ہیں۔اس کا آڈٹ ضرور ہوگا کہ اس کے بدلے کونسا کارنامہ سرانجام دیتے ہو۔ چیف جسٹس نے مڈل مین کے ذریعے تیل کا سودا کرنے پر برہمی کا اظہار کرتے ہوئے کہا کہ مڈل مین بیچنے اور خریدنے والے سے کمیشن لیتا ہے۔ آج 60روپے لیٹر والا تیل عوام کو سو روپے میں مل رہا ہے۔ اس زیادتی پر خاموش نہیں رہا جاسکتا۔پٹرولیم مصنوعات کی قیمتوں میں آئے روز اضافے کا نوٹس لے کر عدالت عظمیٰ نے عوامی جذبات اور احساسات کی ترجمانی کی ہے۔ حیرت کی بات یہ ہے کہ نگران حکومت کے پاس قیمتیں کم کرنے کا اختیار نہیں۔ تو قیمتیں بڑھانے کا بھی اسے کوئی اختیار نہیں۔ تیل کی قیمت بڑھانے سے ہر چیز مہنگی ہوجاتی ہے کرائے بڑھ جاتے ہیں ۔ مہنگائی اور بے روزگاری کے مارے عوام کی قوت خرید پہلے ہی ختم ہوچکی ہے۔ اب اس پر مزید بوجھ ڈالنا قومی مفادات کے منافی ہے۔ اوپن مارکیٹ میں مرغی کا گوشت دو سو روپے فی کلو تک پہنچ گئی ہے۔ روزمرہ ضرورت کی اشیائے کے دام بھی روزانہ کی بنیاد پر بڑھتے جارہے ہیں ۔جس سے ہر شہری متاثر ہورہا ہے۔ قیمتوں میں اضافے کا یہ جواز پیش کیا جاتا ہے کہ ٹرانسپورٹیشن کے اخراجات تیل مہنگا ہونے کی وجہ سے بڑھ گئے ہیں۔لوکل ٹرانسپورٹ کے کرایوں میں بھی غیر اعلانیہ اور من مانا اضافہ کیا گیا ہے۔ جنرل بس اسٹینڈ سے پشاور صدر تک کا کرایہ پندرہ روپے ہے لیکن ویگن والے تیس روپے کرایہ وصول کررہے ہیں۔ بہانہ یہ بنایاجاتا ہے کہ سڑکیں خراب اور تیل و گیس مہنگا ہوگیا ہے۔ پندرہ بیس روپے کرایہ لینے سے خرچہ ہی پورا نہیں ہوتا۔ ٹریفک پولیس کرایوں کے بارے میں پوچھنے کو اپنی ذمہ داری نہیں سمجھتی۔ کوئی شکایت بھی کرے تو اسے ٹال دیا جاتا ہے۔ حکومت نے آئل اینڈ گیس ریگولیٹری اتھارٹی کا قیام تیل و گیس کی قیمتوں کو اعتدال پر رکھنے اور صارفین کو سہولیات فراہم کرنے کے لئے عمل میں لایا تھا۔ مگر اوگرا اب صرف قیمتیں بڑھانے والا ادارہ بن گیا ہے۔ کمپنیوں کو فائدہ پہنچانے کے لئے عوام کی رگوں سے خون نچوڑا جاتا ہے۔ حالانکہ تیل اور گیس کی بڑی مقدار ملک میں پیدا ہوتی ہے۔ سعودی عرب سمیت اوپیک کے دیگر ممالک بھی پاکستان کو رعایتی قیمتوں پر تیل فروخت کرتے ہیں اس کے باوجود پاکستان میں پٹرولیم مصنوعات کی قیمتیں خطے کے تمام ممالک سے زیادہ ہیں۔ تیل، بجلی اور گیس کی اصل سے دو گنا زیادہ قیمت عوام سے وصول کی جاتی ہے۔ اور اضافی رقم ادارے اور ملحقہ کمپنیوں کے اللے تللوں پر لٹائی جاتی ہے۔ سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ کیا اس ملک میں حکومت اور قانون نام کی کوئی چیز باقی نہیں رہی۔ کیا انتظامیہ اور مقننہ کا کام بھی عدالت کو کرنا پڑے گا۔ قوم کے ٹیکسوں سے لاکھوں کروڑوں روپے تنخواہ اور دیگر مراعات لینے والوں کی اب خبر لینی چاہئے کہ کیا انہیں عوام پر بوجھ ڈالنے کی تنخواہ دی جاتی ہے یا عوام کو ریلیف دینے اور انہیں سہولیات پہنچانے کی ذمہ داری تفویض کی گئی ہے۔ غریب قوم کی پونجی سے چند لوگوں کو عیاشیاں کرانے کا یہ سلسلہ اب ختم ہونا چاہئے۔ وقت آگیا ہے کہ تیل، گیس اور بجلی تقسیم کرنے والی کمپنیوں کے اہلکاروں سے ان سہولیات کے مفت استعمال کا حق واپس لیا جائے۔ کیونکہ ان کی خدمات کے عوض انہیں تنخواہ اور مراعات دی جاتی ہیں پھر انہیں پیداوار میں بھی حصہ دینے کا کیا جواز ہے۔ عدالت عظمیٰ ہی وہ واحد ادارہ رہ گیا ہے جوستم رسیدہ عوام کے لئے امید کی آخری کرن ہے۔ توقع ہے کہ عدالت عالیہ عوام کا خون چوسنے والوں کا محاسبہ کرے گی۔ تاکہ مسائل اور مصائب میں مبتلا عوام کو کچھ ریلیف مل سکے۔


شیئر کریں: