Chitral Times

Mar 28, 2024

ﺗﻔﺼﻴﻼﺕ

داد بیداد…….ایون فیلڈ ………. ڈاکٹر عنایت اللہ فیضیؔ

Posted on
شیئر کریں:

قومی انتخابات کے نتائج میں بمشکل 3ہفتے رہ گئے ہیں مگر نتیجہ پہلے ہی آگیا ہے رائے عامہ کے جائزوں میں جس پارٹی کی عوامی مقبولیت کا ذکر آتا تھا اُس پارٹی کے سربراہ کو 10سال قید اور ڈیڑھ ارب روپے جرمانہ کی سزا انتخابات سے 18دن پہلے سنائی گئی ہے یہ پیغام ہے کہ اس کی پارٹی کو حکومت بنانے نہیں دیا جائے گا انگریزی میں اس عمل کو پری پول رگنگ ( Pre-Poll Riging) کہا جاتا ہے قانون میں اس کی اجازت نہیں ہے صاف اور شفاف انتخابات پر نظر رکھنے والے عالمی مبصرین اور جمہوری ادارے اس اقدام کو مشکوک نظروں سے دیکھیں گے اور انتخابات پر اثر انداز ہونے کی کوشش قرار دینگے انصاف کے بارے میں یہ بات عالمی سطح پرتسلیم کی جاتی ہے کہ انصاف ہونا کافی نہیں انصاف ہوتا ہوا نظر بھی آنا چاہیئے ایک سیاسی جماعت اگر مجھے بری لگتی ہے یا ایک سیاسی جماعت کا سربراہ اگر مجھے بُرا لگتا ہے تو اس کو سیاسی منظر سے ہٹانے کا طریقہ یہ ہے کہ میں انتخابات میں اس کو شکست دے دوں گا حکومت میں آکر اُس کی نسبت اچھا نظم و نسق دوں گا اور عوام کی بہتر خدمت کے ذریعے دو چار انتخابات میں مسلسل شکست سے دوچار کر کے اس کا راستہ روک دوں گا یہ جمہوری انداز فکر ہے اس انداز فکر کو دنیا بھر کے جمہوری معاشرے تسلیم کرتے ہیں برطانیہ کی کنزرویٹیو پارٹی کے ناقدین اس طرح کرتے ہیں امریکہ میں ڈیموکریٹک پارٹی کے مخالفین ایسا ہی کرتے ہیں بھارت میں بے جے پی نے کانگریس کے ساتھ ایسا ہی سلوک کیا وطن عزیز پاکستان میں اس کی گنجائش نہیں ہے 1946ء کے انتخابات قیام پاکستان سے پہلے ہوئے تھے اس کے بعد 1956ء تک انتخابات نہیں ہوئے حکومت پر سرکاری ملازمین نے قبضہ کیا حالانکہ برطانیہ کے قانون میں بھی سرکاری ملازمین کو حکومت پر قابض ہونے کی اجازت نہیں تھی سیاست میں حصہ لینے کی اجازت نہیں تھی غلام محمد سرکاری ملازم بھی تھا فالج کا بیمار بھی تھا اُس نے 3 سال حکومت کی سکندر مرزا اور ایوب خان کی حکومت سے لیکر یحییٰ خان کی حکومت تک لمبی تاریخ ہے نواب محمد احمد خان قتل کا مقدمہ ایون فیلڈ کے مقدمے کی طرح پر اسرار مقدمہ تھا اس کا مقصد سرکاری ملازمین کو اقتدار دے کر سیاسی عمل کو روکنا تھا اور ایک سیاسی پارٹی کوختم کر کے سرکاری ملازمین کی حکومت کے لئے راستہ ہموار کرنات تھا مقدمہ کی کاروائی کا لمحہ لمحہ جانبداری دکھار ہا تھا مولوی مشتاق مقدمہ سنتے ہوئے ایک فریق کو گالی بھی دے رہا تھا سب کو نظر آرہا تھا سرکاری ملازم ایک سیاسی پارٹی کے خلاف فریق بنا ہوا ہے 1977ء سے 1979ء تک دو سالوں کے اخبارات کی فائلیں اور ٹیلی وژن خبروں کے ریکارڈ نکال کر دیکھیں تو صاف ظاہر ہوتاہے کہ اس مقدمے کے اصل فریق ایک سرکاری ملازم تھے ایون فیلڈ ریفرنس کا اصل فریق بھی سرکاری ملازم ہے جو دوسرے سرکاری ملازمین کی نمائندگی کر تاہے اس مقدمے کے بارے میں کوئی باپ اپنے 10 سالہ بچے کو نہیں سمجھا جاسکے گا کہ ملزم کا قصور کیا تھا ؟ یونیورسٹی کا کوئی استاد، کوئی پروفیسر ایم اے کی کسی کلاس کو قائل نہیں کرسکے گا کہ ملزم کو کس طرح جرم میں سزا ہوئی ؟ کوئی وکیل یا قانون دان اخبار نویسوں کے کسی گروپ کو نہیں بتا سکے گا کہ ملزم کو کس جرم کی سزا ملی ؟ ملزم سیاستدان ہے اُس نے کس منصوبے میں خیانت کی ؟ کس پراجیکٹ کا فنڈ خرد برد کیا ؟ کس محکمے یا وزارت کا سرکاری پیسہ اپنی ذات پر لگایا ؟ اپنی اولاد پر لگایا؟ کتنے ارب کے فنڈ میں سے کتنا کروڑ خرد برد ہوا ؟ اور اس میں سے کتنے چیک یا ڈرافٹ ملزم کے اکاونٹنٹ میں جمع ہوئے ؟ کس پراجیکٹ میں ملزم کو کتنا کمیشن لیتے ہوئے پکڑا گیا ؟ ان میں سے کوئی بات آپ کسی کو نہیں بتا سکتے ؟ گاؤں کا ا ن پڑھ کسان اخبار پڑھنے والے سے پوچھے کہ ملزم کو کس جرم میں سزا ہوئی ؟ تو اخبار پڑھنے والا اخباری معلومات اور عدالتی کاروائی کی مدد سے اس کے سوال کا کوئی جواب نہیں دے سکے گاَ ؟ گویا انصاف ہوتا ہوا نظر نہیں آرہا؟ تصویر کا دوسرا رُخ آپ دیکھیں پانامہ پیپرز میں باقی497پاکستانیوں کے جو نام آئے تھے ان میں سے کسی ایک کو قید اور جرمانے کی سزا نہیں ہوئی مزید غور کریں بیرون ملک جائدادوں میں پاکستانیوں کا حصہ ایون فیلڈ سے کئی گنا زیادہ ہے اور ان پاکستانیوں میں بڑی تعداد سرکاری ملازمین کی ہے ایون فیلڈ اور پارک لین فلیٹس لندن میں جائدادوں کے نام ہیں آپ اسی لندن کے اطراف میں پاکستان کے سرکاری ملازمین کی جائدادوں کا حساب لگائیں نیویارک، ہوسٹن ، نیو جرسی ، واشنگٹن ڈی سی اور دیگر امریکی شہروں میں پاکستان کے سرکاری ملازمین کی جائدادوں کا ڈیٹا جمع کریں جرمنی ، سپین ، اٹلی ، آسٹریلیا ، ملائیشیا ، دوبئی اور دیگر ملکوں میں پاکستان کے سرکاری ملازمین کی جائدادوں کا حساب لگائیں سوئٹزرلینڈ کے بینکوں میں پاکستان کے سرکاری ملازمین کی دولت کے اعداد وشمار جمع کریں تو ایک صنعتکار اور تاجر کی جائداد ایون فیلڈ یا پارک لین میں ہونا آپ کو بالکل اچھنبا نہیں لگے گا ہمیں ماننا پڑے گا کہ ملک کا کوئی سیاستدان سرکاری ملازم کے مقابلے میں کوئی مقدمہ نہیں جیت سکتا اگر یہ بات ہے الیکشن پر 21ارب روپے نہ لگائیں سرکاری ملازمین کو پارلیمنٹ میں بٹھائیں آرام سے حکومت چلائیں ہم وہ بات کبھی نہیں پوچھیں گے جو ولی دکنی نے ایک بار پوچھنے کی جسارت کی تھی ؂
خنجر پہ کوئی داغ نہ دامن پہ کوئی چھینٹ
تم قتل کرو ہو یا کرامات کرو ہو


شیئر کریں: