Chitral Times

Mar 28, 2024

ﺗﻔﺼﻴﻼﺕ

دو ڈیموں کی تعمیر کا تاریخی فیصلہ…….محمد شریف شکیب

Posted on
شیئر کریں:

سپریم کورٹ آف پاکستان نے نگران وفاقی حکومت کو تین ہفتوں کے اندر بھاشا اور مہمند ڈیم پر کام شروع کرنے کا حکم دیا ہے۔ عدالت عظمیٰ نے فیصلے پر عمل درآمد کے لئے چیئرمین واپڈا کی سربراہی میں عمل درآمد کمیٹی بھی قائم کردی ہے۔ رجسٹرار سپریم کورٹ کے نام پر بینک میں ڈیموں کی تعمیر کے لئے اکاونٹ کھولا جائے گا۔جس میں لوگ چندے جمع کریں گے۔ چیف جسٹس ثاقب نثار نے اپنی طرف سے ڈیم کے فنڈ میں دس لاکھ روپیہ عطیہ دینے کا اعلان کیا۔ آبی ذخائر کے حوالے سے کیس کی سماعت کے دوران چیف جسٹس نے واپڈا حکام سے استفسار کیا کہ ہم سالانہ کتنا پانی ضائع کر رہے ہیں جس پر واپڈا حکام نے عدالت کو بتایا کہ پاکستان سالانہ 90ملین ایکڑ پانی ضائع کر رہا ہے۔ دریاوں کا یہ پانی آبی ذخیرہ نہ ہونے کی وجہ سے سمندر میں گر رہا ہے۔ جبکہ ایک ملین پانی کی قیمت 50کروڑ ڈالر بنتی ہے۔ عدالت نے جب پوچھا کہ سیاسی حکومتوں نے پانی کی قلت جیسے سنگین قومی مسئلے کو حل کرنے کے لئے ڈیم کیوں نہیں بنائے تو وزارت پانی و بجلی کے حکام نے جواب دیا کہ ڈیم بنانا کسی سیاسی حکومت کی ترجیح نہیں رہی۔اس سے قبل کیس کی سماعت کے دوران چیف جسٹس نے ریمارکس دیئے تھے کہ جن لوگوں نے 54ارب روپے کے قرضے لے کر معاف کرائے ان سے رقم وصول کرکے ڈیموں کی تعمیر پر خرچ کی جائے گی۔ چیف جسٹس نے مزید کہا کہ کالاباغ ڈیم پر قومی اتفاق رائے کے بعد اس کی تعمیر بھی ہوگی۔ لیکن بھاشا اور مہمند ڈیم غیر متنازعہ ہیں اس لئے ان پر فوری کام شروع کیا جائے گا۔اسی اثناء میں پیپلز پارٹی کے چیئرمین بلاول بھٹو زرداری کا بیان آیا ہے کہ ڈیم بنانا سپریم کورٹ کا کام نہیں ہے۔ بے شک یہ منتخب سیاسی حکومتوں کا کام ہے لیکن کسی سیاسی حکومت نے آبی ذخائر تعمیر کرنے کی ضرورت محسوس نہیں کی۔ بھاشا دیامر ڈیم کا 2008سے 2018تک دو سیاسی حکومتوں نے چار مرتبہ افتتاح کیا۔پہلے یوسف رضاگیلانی کے دور حکومت میں اس کی تختی کی نقاب کشائی کی گئی۔پھر میاں نواز شریف کے دور میں بھاشا ڈیم کی سائٹ پر فوٹو سیشن ہوا۔ لیکن دس سالوں میں اس اہم قومی منصوبے پر کام شروع نہیں ہوسکا۔دوسری جانب بھارت پاکستان کی طرف آنے والے دریاوں پر متعدد ڈیم بناکر پاکستان پر پانی بند کرنے پر تلا ہوا ہے۔ مگر اپنے حکمرانوں کو اس خطرے کا زرا بھی احساس نہیں ہوا۔ کہا جاتا ہے کہ پہلے قوموں کے درمیان کسی علاقے پر تصرف کے لئے جنگیں ہوا کرتی تھیں۔ پھر معاشی مفادات کے لئے جنگیں ہونے لگیں۔اس کے بعد عسکری برتری کے لئے قومیں آپس میں لڑتی رہیں۔ آنے والے دنوں اور سالوں میں قوموں کے درمیان پانی کے حصول کے لئے جنگیں ہوں گی۔ پاکستان کو اللہ تعالیٰ نے آبی وسائل سے نہایت فیاضی سے نواز ہے۔لیکن ہم نے اس عظیم نعمت کی قدر نہیں کی۔ 60کے عشرے میں تربیلا ڈیم بنایاگیا تھا۔ جو دنیا میں مٹی سے بنا سب سے بڑا ذخیرہ ہی نہیں بلکہ ڈیموں سے نہریں نکال کر زمینوں کو سراب کرنے کا نظام بھی دنیا میں اپنی نوعیت کا سب سے بڑا اور منفرد نظام ہے۔ اس کے بعد غیر سیاسی حکومتیں بھی آئیں۔ شخصی آمریت بھی رہی اور منتخب عوامی حکومتیں بھی بنیں ۔ مگر کسی نے آبی ذخائر تعمیر کرنے اور سمندر میں گر کر ضائع ہونے والا سالانہ 90ملین ایکڑ پانی کو ذخیرہ کرکے زرعی مقاصد کے لئے بروئے کار لانے کی کوئی منصوبہ بندی نہیں کی ۔چیف جسٹس آف پاکستان نے سہی۔ کسی کو تو اس قومی ضرورت کا احساس ہوگیا ہے۔ پوری قوم سپریم کورٹ آف پاکستان کے اس فیصلے کی پشت پر کھڑی ہے۔ کیونکہ آبی ذخائر کی تعمیر ہماری بقاء کا مسئلہ ہے۔اور اپنی آئندہ نسلوں کی بقاء کے لئے قوم کسی قربانی سے دریغ نہیں کرے گی۔معاف کئے گئے قرضے وصول ہونے کے بعد ان کا بہترین مصرف آبی ذخائر کی تعمیر ہے۔ قوم کی لوٹی گئی دولت اگر بیرون ملک سے واپس لانے کی کوئی راہ نکل آئے تو قومی تعمیر کے ان منصوبوں کے لئے کسی کے آگے ہاتھ پھیلانے یا سخت شرائط پر بین الاقوامی مالیاتی اداروں سے قرضہ لینے کی بھی ضرورت نہیں رہے گی۔


شیئر کریں: