Chitral Times

Mar 28, 2024

ﺗﻔﺼﻴﻼﺕ

میرا منہ میری مرضی………قادر خان یوسف زئی

Posted on
شیئر کریں:

سیاست کا موسم چل رہا ہے، اس لیے سیاسی پنڈتوں سے مستقبل کی پیش گوئی کے متعلق جاننے میں زیادہ وقت ضائع ہوجاتا ہے۔ کہنے کو تو سیاسی پنڈت شیخ رشید اور منظور وسان کی طرح خواب دیکھ کر اس کی تعبیریں بتاتے رہے ہیں، لیکن بات یہی ہے کہ تکا ہے لگ جائے تو، ’’دیکھا یہ میں نے پہلے ہی کہا تھا‘‘ اور نہ لگے تو۔۔۔ کسے یاد ہوتا ہے کہ اس نے کب، کس وقت کیا کہا تھا۔ ہمیں تو اب یہ بھی یاد نہیں کہ قائداعظمؒ نے پاکستان کیوں بنایا تھا، کبھی کبھی کوئی دانشور، قائداعظم اور جناح کی تاریخ جاننا چاہتا ہے کہ یہ دو تھے یا ایک۔ تاہم ان کے اس سوال کا جواب مجھ جیسے کم عقل کے پاس نہیں۔ بیشتر دانشوروں کا کہنا ہے کہ جناح اور قائداعظم کو مل کر پاکستان بنانا چاہیے تھا۔ سیاست دانوں کو نیا پاکستان بنانے کے لیے دوبارہ ’محنت‘ نہیں کرنا پڑتی۔ چونکہ میں ان سوالوں کے جواب نہیں دینا چاہتا، اس لیے نہیں کہ میں کسی بحث سے بچنا چاہتا ہوں بلکہ اس لیے کہ واقعی میں چاہتا ہوں کہ وہ تھوڑی محنت کرلیں اور خود جاننے کی کوشش کریں۔
میں روزانہ ہزاروں دانشوروں کی محفل (فیس بک) میں ہوتا ہوں، یہاں گھاٹ گھاٹ کے پانی پینے والے ’’عظیم دانشوروں‘‘ کے خیالات سے مستفید ہوتا ہوں، لیکن سندھ کی نرم خو دھرتی کی مٹی اور سوات کے پہاڑوں سے بہتے آبشاروں کے پانی سے بنا مجھ جیسا انسان ان ’دانشوروں‘ سے اُلجھ نہیں سکتا۔ ہاں، ایک وقت تھا جب قادر خان بھی ’’فاختہ‘‘ اُڑایا کرتے تھے، لیکن اب چند منٹوں میں ’ہاتھوں کے طوطے اڑ جاتے ہیں۔‘ ایک صاحب نے کہا کہ آج کل آپ بہت خوش لگ رہے ہیں۔ اس دانشور کو نہیں معلوم کہ میرے ہنسنے کا سبب، بے سبب نہیں۔ جب بندہ کھسیانا ہوجائے تو۔۔۔ پھر مجھ جیسا لکھاری جب ماحول کے رنگ میں رنگے تو رنگ دے بسنتی اور چھنو عزت کا سوال ہے، بھاگ۔۔۔ کیونکہ ’کراچی‘ کا سوختہ ’گبر‘ اب بھی کہہ رہا ہے کہ سو، سو کوس دُور جب بھی کوئی روتا ہے، ماں کہتی ہے چپ ہوجا ’’گبر‘‘ آجائے گا۔
میں نے گزشتہ کالم میں ’’نادر‘‘ مشورہ دیا تھا کہ ووٹرز ان کو منتخب کریں جو اُن کے حلقوں میں رہتے ہوں تو مجھے بڑا سیدھا جواب ملا کہ خان صاحب آپ مخول، بڑا کرتے ہیں۔ میں نے انکساری سے کہا کہ جی یہ تو اللہ تعالیٰ کا کرم ہے ورنہ بندہ اس قابل کہاں۔ فوراً بولے، جی یہی تو کہہ رہا ہوں کہ ’منہ اچھا نہ ہو تو بات اچھی کرلینی چاہیے۔‘ اب مجھے ان کی بات پر غصہ آیا کیونکہ میں بات اچھی کروں یا نہ کروں، منہ پر کوئی سمجھوتا نہیں کرسکتا، میرا منہ میری مرضی۔ ماں کا چاند دُلارا، آنکھوں کا تارا، تو اس عمر میں بھی ہوں، وقت گذشتہ میں ’پپو یار‘ تھا، کہہ دیتا کہ ’’تنگ نہ کر‘‘۔ خیر سب سیاسی پنڈتوں سے ملاقات تو ممکن نہیں ہوپاتی، اس لیے خاص خاص سیاسی پنڈتوں سے حالیہ انتخابات کے حوالے سے تازہ ترین صورت حال سمجھانے کی گزارش کی۔ سکتہ ہوا کہ جس سیاسی پنڈت کے پاس گیا، اُس کے پاس وہ سب متحد ہوکر پہلے سے موجود تھے جو انتخابات میں حصہ لے رہے تھے اور ایک دوسرے کے سخت مخالف ہیں، وہ سیاسی پنڈتوں کے پیر دبارہے تھے۔ میں سمجھ چکا تھا کہ سیاسی پنڈت مجھے کوئی اندر کی بات نہیں بتا پائیں گے، کیونکہ جس گہرائی میں سیاسی پنڈتوں کی نظر تھی، مجھے لگا اِن کی نظر اُن انگوروں پر بھی ہے جو ’’کھٹے‘‘ ہیں۔
اب گلی گلی کی خاک چھاننا میرے لیے ناگزیر ہوچکا تھا۔ یہ دیکھ کر دل نے سکون کا سانس لیا کہ کسی بھی علاقے میں جانے کے لیے مجھے شناختی کارڈ دکھانے کی ضرورت پیش نہیں آئی، کراچی میں قانون نافذ کرنے والے اداروں سے زیادہ ’’الرٹ‘‘ اسٹریٹ سیکیورٹی گارڈ رہتے تھے جو کسی انجانے شخص کو دیکھتے ہی موٹر سائیکلوں میں سوار پہنچ جاتے تھے۔ لیکن حقیقت بیان کروں تو یہ سب نہ جانے کیوں مصنوعی سا معلوم ہورہا ہے۔ حالاںکہ سب کچھ ٹھیک لگ رہا ہے، لیکن محسوس نہیں ہورہا کہ انتخابی ماحول میں بھی یہی سب کچھ ہوگا۔ مجھے کئی احباب نے بتایا کہ ہمیں خوف سے آزادی نہیں ملی ہے۔ آج بھی ’’نامعلوم‘‘ افراد آتے ہیں اور بڑے پیار سے کہتے ہیں کہ ہمیں تکلیف نہ دینا۔ اس بار ہمارا ساتھ دے دو، زندگی بھر، زندگی کا احسان دیں گے۔ میں نے ان احباب کی بات پر یقین کیا، کیونکہ میں دیکھ رہا تھا کہ ان کے چہروں پر کئی عشروں کا خوف اب بھی موجود تھا۔ مایوس ہونا اچھی بات نہیں، لیکن جب انسان توقعات کے انتہائی نچلے درجے پر پہنچ جاتا ہے تو اُس کی ذہنی حالت قابل رحم ہوجاتی ہے۔ میں نے انہیں ہمت دلائی کہ دیکھو، مجھے دیکھو، میں بھی تو ’’آزاد‘‘ پھر رہا ہوں۔ ہمارے علاقوں میں آپ نہیں آسکتے تھے، ہم آپ کے علاقوں میں نہیں جاسکتے تھے۔ آج بلاخوف و خطر آتے بھی ہیں اور جاتے بھی ہیں۔ یہاں مجھے اپنے ’جھوٹ‘ بولنے کا افسوس ہوا، کیونکہ یہ ایک واقعی سچا جھوٹ تھا، جس کا اظہار میں لکھ کر کررہا ہوں۔ کیونکہ سانپ کی عادت ڈسنے کی ہے، اس لیے میں سانپ کو دودھ پلاکر یہ توقع نہیں کرسکتا کہ وہ مجھے کبھی ڈسے گا نہیں۔ لیکن اللہ تعالیٰ کی ذات سے امید رکھنا ہمارا ایمان ہے، اس لیے یقین رکھتا ہوں۔
میں آج کے کالم میں بہت کچھ ایسی باتیں لکھنا چاہتا تھا، جو میں انتخابی ماحول میں دیکھ رہا ہوں، لیکن اس وقت لکھتے لکھتے، ساری شوخی ہوا ہوچکی ہے۔ میں ایک ماحول میں مخول کرتے ہوئے ڈھکے چھپے لفظوں میں بات گھما پھرا کر اپنے دل کا غبار نکالنا چاہتا تھا۔ کیونکہ ان دنوں کئی ایسے واقعات نظروں کے سامنے آرہے ہیں کہ فی الوقت لکھنے سے کترا رہا ہوں۔ قارئین کہہ سکتے ہیں کہ تو یہ بھی لکھنے کی کیا ضرورت تھی، کچھ اور لکھ کر بات کو چھپا لیتے ہیں۔ لیکن ایسا ہو بھی نہیں سکتا کہ میں ’سچ‘ کا گلا گھونٹ دوں، لیکن زندگی رہی تو آنے والے دنوں میں اس پر اظہاریہ بھی ضرور کروں گا۔ تاہم کچھ کہا بھی ہے، اس پر غور کرلیں۔کراچی میں انتخابات جس ماحول میں ہورہے ہیں، فی الحال پُرجوش ماحول ابھی تک نہیں بن سکا، کچھ الیکشن کمیشن کی جانب سے ضابطۂ اخلاق کے تحت ہمیں جھنڈوں کی بہار، بینروں کی یلغار اور سرکاری پولوں پر تزئین و آرائش کم دیکھنے کو مل رہی ہے۔ لیکن گم شدہ سیاست دانوں کو اپنے درمیان پاکر جہاں عوام خوش ہوتے ہیں وہیں ’’بے عزت کرو، شہرت پائو‘‘ کی ویڈیو مہم بھی زوروں پر چل رہی ہے۔ سیاسی جماعتوں نے اپنا اپنا منشور پیش کردیا ہے۔ میرے خیال میں ان تمام منشوروں کو نصاب کا حصہ بنالینا چاہیے، ان کو ’ادب‘ کے فن پاروں کا درجہ قرار دے کر آرٹس کونسل کو خصوصی نشستوں کا اہتمام ضرور کرنا چاہیے۔ عمران خان کے نزدیک نظام کی تبدیلی کے لیے سب سے ضروری تھا کہ سب سے پہلے انہیں وزیراعظم بنانے کے لیے جو انتخابات میں کامیاب ہوسکتا ہے، اُسے جماعت میں شامل کرکے ٹکٹ دیا، کیونکہ انہیں مخلوط حکومت میں شامل بھی نہیں ہونا، الیکٹیبلز کو انہیں دوتہائی اکثریت سے کامیاب بنانا ہوگا۔
دوسری جانب شہباز شریف نے بھی حکومت بنانے کے لیے ایک ’زبردست‘ آفر مہم دی ہے کہ آنے والی حکومت قومی ہوگی، جس میں تمام سیاسی جماعتوں کو شامل کیا جائے گا، یا شامل ہوں گے۔ کیونکہ وہ اس بار نہیں چاہتے کہ سارا وقت اپوزیشن کے ساتھ محاذ آرائیوں میں گزر جائے۔ دونوں رہنمائوں کی بات ایک ہی ہے۔ عمران خان نے الیکشن سے قبل ہی تمام سیاسی جماعتوں کے الیکٹیبلز کو اپنی سیاسی جماعت میں شامل کرلیا ہے۔ اب پی ٹی آئی کے نظریاتی و بنیادی اراکین کی تعداد کم اور تمام سیاسی جماعتوں کے الیکٹیبلز کی تعداد اتنی ہوچکی ہے کہ انہیں خود کو ’’قومی جماعت‘‘ کہنے میں کوئی عار نہیں ہونا چاہیے۔ شہباز شریف الیکشن کے بعد قومی حکومت بنانے کا دعویٰ کررہے ہیں۔ خیر یہ تو 25 جولائی کو ہی علم ہوگا کہ شہر اقتدار پر کس کا راج ہوگا، لیکن ایک غیر جانب دار سیاسی پنڈت نے اشارہ دیا ہے کہ سب پرانی تنخواہ پر کام کریں گے۔


شیئر کریں: