Chitral Times

Mar 29, 2024

ﺗﻔﺼﻴﻼﺕ

ٹکٹ مجھے بھی دلادو……. محمد شریف شکیب

Posted on
شیئر کریں:

پوری قوم ان دنوں الیکشن کے بخار میں مبتلا ہے۔اور بخار بھی ایسا ہے کہ اس کا علاج کرانا بھی کوئی نہیں چاہتا۔ لوگ اپنے سارے دکھ، درد،غم،خوشی، مصروفیات اور کام کاج بھلا کر انتخابی سرگرمیوں میں مگن ہیں۔ کوئی اپنے پسندیدہ امیدواروں اور پارٹی کے لئے مہم چلا رہا ہے تو کوئی پوسٹر اور پمفلٹ تقسیم کرنے میں مصروف ہے۔ سب سے قابل رحم حالت ان لوگوں کی ہے جنہیں ٹکٹ نہیں ملا۔کوئی ٹکٹ نہ ملنے پر احتجاجی دھرنا دے رہا ہے تو کوئی جرگے کر رہا ہے۔ ٹکٹ نہ ملنے پر اکثر لوگ اپنی پارٹی چھوڑ کر مخالف پارٹیوں میں شامل ہونے کا اعلان کر رہے ہیں۔ سیاست میں وفاداری بشرط استواری کا فارمولہ کارفرما ہوتا ہے۔ بھارت کے ایک مشہور مزاحیہ شاعر پاپولر میرٹھی نے ٹکٹ کے طلب گار ایک امیدوار کے امنگوں کی منظر کشی کی ہے جو ہمارے یہاں کی سیاست سے پوری طرح میل کھاتی ہے۔ شاعر کا تخلیق کردہ کردار ایک تعلیم یافتہ بے روزگار نوجوان ہے۔ جو ملازمت کے تمام دروازے بند پاکر سیاست میں قدم رکھنا چاہتا ہے اور بتاتا ہے کہ ٹکٹ کی خاطر وہ کیا کچھ کرسکتا ہے۔
ٹکٹ کے واسطے غیرت بھی بیچ سکتا ہوں میں خاندان کی عزت بھی بیچ سکتا ہوں
بکے تو اپنی شرافت بھی بیچ سکتا ہوں مجھے سکون ہے درکار۔ زندگی کے لئے
میں بے قرار ہوں مدت سے ممبری کے لئے ٹکٹ مجھے بھی دلا دو۔ اسمبلی کے لئے
اسمبلی کی رکنیت اور پھر وزیر، مشیر بنائے جانے کے بعد عام طور پر سیاست دان کا جو طرز عمل ہوتا ہے۔ اس کی عکاسی بھی پاپولر میرٹھی نے اپنے منفرد انداز سے کیا ہے۔ کہتے ہیں کہ۔
ہر اک طرح کی تگڑم سے آشنا ہوں میں جو رہزنوں سے نہیں کم ، وہ رہنما ہوں میں
ملی جو کرسی تو پھر دیکھنا کہ کیا ہوں میں ہزار راہیں ملیں گی، شکم پری کے لئے
ٹکٹ مجھے بھی دلادو، اسمبلی کے لئے
ہمارے ہاں الیکشن کے دنوں میں معاشرے کا سب سے خاکسار طبقہ انتخابی امیدواروں کا ہوتا ہے۔ وہ غمی خوشی میں سب سے پہلے پہنچتا ہے۔ بزرگوں کے ہاتھ چومتا اور ان سے دعائیں لیتا ہے۔ ہم عمر نوجوانوں کو گلے لگاتا ہے۔ بچوں کے سروں پر شفقت سے ہاتھ پھیرتا ہے۔ ہر گلی محلے میں روزانہ پانچ دس مرتبہ وہی نظر آتا ہے۔ جب انتخابی نتائج آتے ہیں اور لوگ انہیں کامیابی پر مبارک باد دینے جاتے ہیں اسی روز ان کا چال ڈھال بدل جاتا ہے۔ اسمبلی میں حلف اٹھانے کے بعد وہ عوام الناس کی نظروں سے یوں اوجھل ہوتا ہے جیسے گدھے کے سر سے سینگ۔اس کے بعد وہ خود کو ہی عوام سمجھتا ہے اور عوامی خدمت میں ایسا جت جاتا ہے کہ اسے سر کھجانے کی فرصت بھی نہیں ہوتی۔ بقول پالولر میرٹھی کے۔
کروں گا قبضہ میں خالی پڑی زمینوں پر نہ آئے تاکہ شکن آپ کی جبینوں پر
رہے گی خاص نوازش میری حسینوں پر عوامی کام کروں گا، عوام ہی کے لئے
ہمارے ہاں آزاد امیدواروں کی انتخابات میں کامیابی کی شرح دنیا کے کسی بھی جمہوری ملک سے زیادہ ہے۔ کامیابی کے بعد یہ آزاد لوگ واقعی ہر قسم کے وعدے وعید، اخلاقی ضابطوں، معاشرتی اقدار اور قانونی حدود و قیود سے آزاد ہوجاتے ہیں۔چونکہ حکومت بنانے والے ان کی تائید و حمایت کے محتاج ہوتے ہیں اس لئے وہ اپنی قیمت ہیرے جواہرات میں بتاتے ہیں اور منسٹری سے کم پر راضی ہی نہیں ہوتے۔ اس صورت حال کی شاعر نے یوں عکاسی کی ہے۔
میں سنگ ریز سے گوہر بنادیا جاوں میں ایک قطرہ، سمندر بنادیا جاوں
عجب نہیں، کہ منسٹر بنادیا جاوں میں ہر طرح ہوں مناسب منسٹری کے لئے
دلچسپ اتفاق ہے کہ ہر امیدوار خود کو نہ صرف خود دار، عوام کا خدمت گار، نہ بکنے والا، نہ جھکنے والا سمجھتا ہے بلکہ دیگر تمام امیدواروں سے بہتر اور عوام کے قیمتی ووٹ کا سب سے زیادہ حق دار سمجھتا ہے۔ مشتاق یوسفی کہتے ہیں کہ ’’ ایسا بھی کوئی ہے کہ سب اچھا کہیں جسے‘‘ کے ترازو میں اگر لوگوں کو تولا جائے تو اپنے سوا سب لوگوں میں ہزار خرابیاں نظر آتی ہیں۔ اور اگر شعر کو الٹا پڑھا جائے کہ’’ ایسا بھی کوئی ہے کہ سب برا کہیں جسے‘‘ تو اپنے سوا ایسے ایسے لوگوں کے نام ذہن میں آئیں گے کہ ان کا نام زبان پر لاتے ہوئے انسان کو اپنے بال بچوں کی جانوں کے لالے پڑتے نظر آتے ہیں۔بھارتی فلموں میں سیاست دانوں کے کردار ہم مبالغہ آرائی سمجھتے تھے۔ لیکن پاپولر میرٹھی کی یہ نظم پڑھ کر یقین ہوگیا کہ اس پرچم کے سائے تلے ہم سب ایک ہیں۔


شیئر کریں: