Chitral Times

Mar 29, 2024

ﺗﻔﺼﻴﻼﺕ

احمق ترین شخص………تحریر: اقبال حیات آف برغذی

Posted on
شیئر کریں:

جائے گا جب جہاں سے کچھ بھی نہ پاس ہوگا
دو گز کفن کا ٹکڑا تیر ا لباس ہوگا
یہ دنیا کی زندگی کا حقیقی نقشہ ہے۔ بنی نوع انسان کا اس دنیا میں آمد ورفت کا سلسلہ تخلیق آدمؐ سے تاہنوز جاری وساری ہے اور قیامت تک جاری رہیگا۔ اس دنیا میںآتے وقت ہاتھ خالی ہوتے ہیں اور یون جاتے ہوئے بھی خالی ہاتھ جانا پڑتا ہے۔ اس حقیقت حا ل کو سامنے رکھتے ہوئے حضرت عمرؓ ایک دفعہ اپنے ہم مجلسوں کو مخاطب کرتے ہوئے ان سے احمق ترین شخص کی شناخت کا تقاضا کرتے ہیں۔شریک محفل بیک زبان کہتے ہیں کہ احمق ترین شخص وہ ہے جو دنیا کے بدلے اپنی آخرت برباد کرے۔ حضرت عمرؓ فرماتے ہیں کہ سب سے زیادہ احمق انسان وہ ہے جو اپنی آخرت کسی اور کے لئے بیچ دے ۔
کسی دانا کا قول ہے کہ مجھے اس شخص پر تعجب ہے جو اپنے مال کے نقصان پر افسوس کرتے ہوئے زنجید ہ ہوتاہے مگر اپنی عمر کے ضیاع پر افسوس نہیں کرتا۔ مجھے اس شخص پر حیرت ہے جس سے دنیا منہ موڑرہی ہے اور آخرت اس کی طرف بڑھ رہی ہے مگر وہ جانے والی میں مشغول ہوکر آنے والی کی فکر نہیں کرتا۔
اس تناظر میں اگر دیکھا جائے تو عقل و خرد کے مالک انسان پر ماتم کرنے کی جی چاہتا ہے۔ جو اپنی اور اپنی اولاد کی فکر فردامیں پوری زندگی غلطان رہتاہے۔ دنیا کو مقصد حیات کے طورپر اپنا تا ہے۔ شرعی حدو دقیود سے مادر وپدر آزاد مال ودولت کی کثرت کی حسرت میں سرگردان رہتاہے ۔ دوسروں کے حقوق اور حلال وحرام کی تمیز سے ناآشنا آنکھین بندکئے دنیا کے حصول کے لئے ہاتھ پاؤں مار رہا ہوتا ہے۔ کوئی قومی نمائندے کے رنگ میں لٹیرا بن جاتا ہے کوئی حکمرانی کا لباس فاخرہ زیب تن کئے قومی دولت پر ہاتھ صاف کرتا ہے اور مسند اقتدار کو اپنی ذہنی خباثت سے قابل نفریں بناتا ہے۔ کوئی کاروباری دنیا میں قصاب کاروپ دھار لیتا ہے توکوئی اغیار کی خیرات پر ہاتھ صاف کرنے کے لئے آستین چڑھائے نظرآتا ہے۔ سرکاری کارندے قرض کی ادائیگی میں غفلت کو قومی حق تلفی کے زمرے میں نہیں لاتے۔ الغرض ہر شعبہ ہائے زندگی میں بددیانتی ،بدکرداری اور لوٹ کھسوٹ سر چڑھ کر بول رہے ہیں۔ خدا خوفی اور محشر کے حساب کتاب کا تصور غربت کی گلی میں بے بسی کے رنگ میں نظر آتے ہیں۔ یوں تو زندگی کا یہ میلہ روان دوان ہے ۔حالانکہ انسان اپنی افرینش پر غور وفکر کرے تو یہ حقیقت روز روشن کی طرح عیاں ہوتی ہے۔ کہ رحم مادر میں بچہ نہ کچھ طلب کرتاہے اور نہ غمگین اور فکر مند ہوتاہے۔ اس وقت اللہ رب العزت اس کو نال کے ذریعے رزق عطا کرتے ہیں۔ شکم مادر میں غذا ماں کے حیض کا خون ہوتا ہے۔ جس کی وجہ سے حاملہ عورت کو حیض بند ہوتا ہے۔جب بچہ پیدا ہوتا ہے تو اس کی نال کاٹ دی جاتی ہے۔ اور اس کا رزق ماں کی چھاتی میں منتقل ہوتا ہے پھر وہ ررزق اس چیزمیں بدل جاتی ہے جو اس کے لئے بنائی جاتی ہے اور وہ اپنے ہاتھ سے کھا تاہے۔یہاں تک کہ پروان چڑھ کر جب عقل وخرد اور شعور کی نعمتوں سے فیضیاب ہوتا ہے تو کہتا ہے کہ “میرارزق کہاں سے آئے گا”یوں اس فکر وخیال فاسد کی دنیامیں ایسا کھو جاتا ہے کہ پیدا کرنے والے کے احکامات کی فکر بھی ختم ہوجاتی ہے اور بالشت بھر پیٹ کی آگ بھجنے کانام نہیں لیتا۔ یہاں تک کہ قبر سے واسطہ پڑتاہے۔ اور یوں دنیا پرستی کے اس جنون کی کیفیت کے بارے میں کہا جاتاہے کہ ایک تاجر کا انتقال ہوا۔ اللہ تعالیٰ کے ہا ں اس کی پیشی ہوئی۔ رب کائنات نے ان سے فرمایا کہ تمہاری نیکی اور تمہارے گناہ برابر ہیں۔ کہو جنت میں جاؤ گے یا جہنم میں ۔ تو اس تاجر نے کہا کہ جی میں تو جنت اور جہنم کو جانتا ہی نہیں جہان دو پیسے کا فائدہ ہو وہاں پہنچا دو۔
آج ہر انسان کو دنیا پرستی کا ایسا ہی مرض لاحق ہے ۔عبرت کے واقعات بھی اس کا مداوا نہیں بنتے ۔حال ہی میں ایران کے شاہی خاندان کی ڈھائی ہزار سالہ حکمرانی کے زوال اور حاکم وقت کو اپنی آبائی سلطنت میں قبر کے لئے بھی زمین نصیب نہ ہونا دنیا کی بے ثباتی اور انسان کی کمدستی کا منہ بولتا ثبوت ہے۔


شیئر کریں: