Chitral Times

Mar 28, 2024

ﺗﻔﺼﻴﻼﺕ

لاقانونیت کا دور……….. محمد شریف شکیب

شیئر کریں:

مرکز اور صوبوں میں منتخب حکومتوں کی تحلیل کے بعد اگرچہ تین ماہ کے لئے نگراں حکومتوں کا قیام عمل میں آیا ہے تاہم ایسا لگتا ہے کہ ملک میں لاقانونیت کا راج ہے۔ عوام کا کوئی پرسان حال نہیں رہا۔ اور خود عوام بھی اپنے درپے آزار ہوچکے ہیں۔سارا زور انتخابات کی تیاریوں پر لگایا جارہا ہے۔ کہ کس پارٹی نے کس کو ٹکٹ دیئے ۔کون ٹکٹ سے محروم رہا۔ ٹکٹ نہ ملنے والوں کا کیا ردعمل تھا۔ کس کے کاغذات نامزدگی مسترد اور کس کے منظور ہوئے۔ کس کس نے اپنی سیاسی وفاداریوں کا سودا کیا ۔ کون کتنے میں بکا۔ سیاسی پارٹیاں اپنے اصولوں کو بالائے طاق رکھ کر کس کس کے ساتھ انتخابی اتحاد یا سیٹ ایڈجسٹمنٹ کرنے جارہی ہیں۔پوری قوم کو خواب میں بھی انتخابات کی گہما گہمی ہی دکھائی دیتی ہے۔ اس دوران پٹرولیم مصنوعات کی قیمتوں میں اضافہ کردیا گیا۔ پٹرول سوا چار روپے جبکہ ڈیزل چھ روپے پچپن پیسے فی لیٹر مہنگا کردیا گیا۔ پٹرول کی قیمت 91روپے 96پیسے اور ڈیزل کی قیمت 105روپے 31پیسے فی لیٹر ہوگئی ہے۔ تیل کی قیمتوں میں اضافے سے مہنگائی کی نئی لہر آئی ہے۔ عوام پس رہے ہیں لیکن چونک ملک میں کوئی حکومت نہیں۔ اس لئے عوام کا پوچھنے والا کوئی نہیں۔ابھی تیل مہنگا ہونے پر رونے والے عوام کے آنسو خشک نہیں ہوئے تھے کہ آئل اینڈ گیس ریگولیٹری اتھارٹی نے گیس کی قیمتوں میں 200فیصد اضافے کی منظوری دی ہے۔ ماہانہ 100یونٹ گیس استعمال کرنے والوں کے لئے گیس کی قیمت 110روپے سے بڑھا کر 314روپے، 200یونٹ ماہانہ استعمال کرنے والوں کے لئے 220روپے سے بڑھا کر 629روپے اور 300یونٹ استعمال کرنے والوں کے لئے قیمت 600روپے سے بڑھا کر 780روپے فی یونٹ مقرر کردی گئی۔جبکہ کمرشل صارفین کے لئے فی یونٹ قیمت 700روپے سے بڑھا کر 910روپے فی ایم ایم بی ٹی یو مقرر کی گئی ہے۔اس ظالمانہ اور بلاجواز اضافے سے گیس کی قیمت سوختنی لکڑی سے بھی مہنگی ہوجائے گی۔ اسی دوران ہماری کرنسی کی قیمت بھی ڈالر کے مقابلے میں مزید سستی ہوگئی۔ ایک ڈالر 121روپے 50پیسے کی بلند ترین سطح پر پہنچ گیا۔ صرف ڈالر ہی نہیں ۔ پاونڈ سٹرلنگ کی قیمت چھ روپے اکیس پیسے اضافے کے ساتھ 161اور یورو کی قیمت پانچ روپے 72پیسے اضافے کے ساتھ 141روپے 87پیسے تک پہنچ گیا۔جس سے افراط زر کی شرح بھی بڑھے گی اور قیمتوں میں مزید اضافہ ہوگا۔نگران وزیراعظم یا نگران وزرائے اعلی نے اس کا کوئی نوٹس لیا نہ ہی سپریم کورٹ اور ہائی کورٹ کے چیف جسٹس صاحبان نے اس پر ازخود نوٹس لیا۔نگران حکمران شاید اسے اپنے دائرہ اختیار سے باہر سمجھتے ہیں انہوں نے خود کو انتخابات تک ہی محدود کردیا ہے۔ لیکن آئین کے مطابق آزادانہ، منصفانہ اور غیر جانبدارانہ انتخابات کے ساتھ عوام کی جان و مال اور عزت و آبرو کے تحفظ کی ذمہ داری بھی ان پر عائد ہوتی ہے۔ کسی سیاسی پارٹی یا لیڈر نے بھی بجلی، گیس، پٹرولیم مصنوعات کی قیمتوں میں ہوشربا اضافے اور روپے کی قدر میں کمی پر کوئی بیان جاری کرنا بھی مناسب نہیں سمجھا جس سے ظاہر ہوتا ہے کہ ان لوگوں کو صرف اور صرف اپنے مفادات کی فکر ہے۔ عوام بھاڑ میں جائیں اس صورتحال کا سب سے افسوسناک پہلو یہ ہے کہ عوام پر بھی الیکشن کا بھوت سوار ہوچکا ہے۔انہیں سیاسی جلسوں میں نعرے لگانے، پارٹی پرچموں کے ہم رنگ لباس اور ٹوپیاں سلوانے سے فرصت نہیں۔ وہ اپنا گھر جلا کر سیاست دانوں کے گھروں میں چراغان کرنے پر تلے ہوئے ہیں۔بازار میں مرغی کے گوشت کی قیمت سو روپے فی کلواضافے کے ساتھ230روپے تک پہنچ گئی ہے۔ پھلوں اور سبزیوں کے نرخ بھی آسمان سے باتیں کر رہے ہیں لیکن عدلیہ اور انتظامیہ سمیت تمام اداروں کو الیکشن فوبیا ہوگیا۔ انتخابات میں ایک ماہ سے بھی کم عرصہ رہ گیا۔ انتخابی جنون بڑھتا جارہا ہے۔ اپنی عاقبت سے بے خبر عوام نہ جانے الیکشن کے انعقاد اور نئی حکومتوں کے قیام تک کیا کیا کچھ کھودیں گے۔ میڈیا کو عوامی مفادات کا نگہبان تصور کیا جاتا تھا۔ مگر موجودہ صورتحال میں ٹی وی سیکرین اور اخبارات کے صفحات پر بھی صرف جمہوری چورن بکتا ہے۔پاکستان کے غریبوں کا بس اللہ ہی حافظ ہے۔


شیئر کریں: