Chitral Times

Apr 19, 2024

ﺗﻔﺼﻴﻼﺕ

نہ ملی ایک بوند پانی کی……. احمد آزاد،فیصل آباد

Posted on
شیئر کریں:

پانی انسانی زندگی کا نہایت اہم غذائی جزو ہے۔ بلکہ یوں کہا جائے کہ پانی ہی زندگی ہے تو غلط نہ ہوگا کیونکہ اب تک دریافت شدہ کروڑوں سیاروں اور ستاروں میں سے ہماری زمین ہی وہ واحد سیارہ ہے جہاں زندگی پوری آب و تاب کے ساتھ رواں دواں ہے اور اس کی وجہ یہاں پر پانی کا ہونا ہے۔ہماری زمین کا 70 فیصد حصہ پانی اور صرف 30 فیصد خشکی پر مشتمل ہے تقریباً یہی حال ہمارے جسم کا بھی ہے ہمارا دو تہائی جسم پانی ہی پر مشتمل ہے۔ ایک عام انسان کے جسم میں35 سے 50 لیٹر تک پانی ہوتا ہے۔ مردوں میں کل وزن کا65 تا 70 فیصد حصہ پانی ہے جبکہ خواتین میں 65 فیصد پانی ملتا ہے۔ صرف دماغ کو ہی لیں تو اس کا85 فیصد حصہ پانی ہے۔ امراض سے لڑنے والے ہمارے خلیے خون میں سفر کرتے ہیں۔ خون بذاتِ خود 83 فیصد پانی ہی ہے۔ ہمارے ہر جسمانی خلیے میں موجود پانی ہی سے بدن کے تمام نظام چلتے ہیں۔ ان میں نظام ہضم کے علاوہ دوران خون اور فضلات کے اخراج کا نظام بھی شامل ہے۔دو حصے ہائیڈروجن گیس اور ایک حصہ آکسیجن کا اگر مل جائیں تو پانی بن جاتا ہے اسی لئے کیمیائی زبان میں اسے H2Oکہا جاتا ہے۔پانی برف کی صورت میں پہاڑوں پر گرتا ہے پھر ندی اور دریاؤں کے ذریعے بہتا ہوا ہم تک پہنچتا ہے اس دوران اس میں معدنیات شامل ہوتی ہیں جن میں کیلشیم، میگنیشم، کلورائیڈ،فلورائیڈ، آرسینک، نائیٹریٹ، آئرن اورسلفیٹ شامل ہیں۔یہ وہ قدرتی معدنیات ہیں جنہیں Mineralsکہا جاتا ہے۔ اگر یہ ایک خاص مقدار میں شامل ہوں تو یہی پانی زندگی کے لیے آب حیات کا کام کرتا ہے۔ اگر اس سے زیادہ ہوں تو جتنے زیادہ ہوں اتنے ہی نقصان دہ بھی یہاں تک کہ یہ پانی موت کا پیغام بھی ثابت ہو سکتاہے۔ان قدرتی معدنیات کے علاوہ بھی اس پانی میں پہاڑوں سے دریاؤں پھر جھیلوں اور ڈیموں سے ہوکر گھروں تک پہنچنے کے دوران ایسے بہت سےParticles شامل ہوجاتے ہیں جو انسانی زندگی کے لئے انتہائی مہلک ثابت ہوتے ہیں۔
میری پیدائش اس عرصے میں ہوئی جب صرف دبی دبی آوازوں میں معدودے سے لوگ پانی کی قلت کا اظہارکرکے ڈرایا کرتے تھے اور جس علاقے میں میری رہائش ہے وہاں اگرچہ پانی کی قلت کا مسئلہ نہیں ہے لیکن پانی میں ملوں کا کیمیکل زدہ پانی ملنے اور فارغ زمین پر پانی کو کھلا چھوڑنے کی وجہ سے زمین کا نچلا پانی اس قدر زہریلا ہوچکا ہے کہ فیصل آباد کی اچھی خاصی تعداد یرقان جیسی بیماری کا شکار ہوچکی ہے ۔یہ ایک خطرناک صورت حال ہے لیکن فی الوقت کوئی ایسی سنجیدہ کارروائی حکومتی اداروں کی طرف سے دیکھنے کو نہیں مل رہی کہ یرقان ایسے موذی مرض سے ضلع فیصل آباد اور اردگرد کے رہائشیوں کو بچایا جاسکے اور زہریلے پانی کی صاف پانی میں ملاوٹ کو سختی سے روکا جاسکے۔تقسیم برصغیر سے پاکستان کے حصے میں جو مسائل آئے ان میں پانی کا مسئلہ ایک طرح سے سرفہرست تھا ۔کشمیر پر بھارتی غاصبانہ قبضے نے بھارت کے ہاتھوں کو اس طرح سے مضبوط کیا کہ پاکستان کی شہ رگ اس کے ہاتھ میں آگئی جسے وہ جب چاہتا مستقبل قریب و بعید میں دبا سکتا تھا ۔اسی مسئلہ کی وجہ سے 1960ء میں سندھ طاس معاہدہ عمل میں لایا گیا جس میں بھارت اور پاکستان کے حصے کو منصفانہ طریقے سے تقسیم کرنے کی کوشش کی گئی ۔اس معاہدے کی رو سے بیاس ،راوی،ستلج کو بھارتی تصرف میں دے دیا گیا اور چناب،جہلم اور سندھ کو پاکستان کا حصہ قرار دیا گیا ۔منگلا و تربیلا ایسے ڈیم پھر اسی لیے بنائے گئے کہ ملکی ضرورت کو پورا کیا جاسکے جو کہ 80کی دہائی تک بلاشبہ اس کو کماحقہ پورا کرتے رہے ۔اس وقت یہ دونوں ڈیم اپنی عمر تقریباََ پوری کرچکے ہیں اور اس سارے دورانیے میں ہم نے پانی اور ڈیم پر سوائے سیاست کے کچھ اور کرنا درخوداعتنا ء نہ سمجھا ۔پوری دنیا میں ملکی ضرورت کے حساب سے 180دن کا پانی ذخیرہ کیا جاتا ہے اور بھارت اپنی ملکی صورتحال کے پیش نظر 150دن تک کا پانی ذخیرہ کرسکتا ہے ۔پاکستان کے پاس 30دن کا پانی ذخیرہ رکھنے کی گنجائش ہے جو کہ ظاہر کرتا ہے کہ پاکستان اس وقت کس قدر خطرناک صورت حال سے دوچار ہوچکا ہے ۔پاکستان کی صورت حال یہ ہے کہ جب پانی ہوتا ہے تو ہم ڈوب کر مررہے ہوتے ہیں اور جب پانی نہیں ہوتاتو پیاسے مرتے ہیں ۔2010ء کے سیلاب کی وجہ سے 1بلین سے زائد پانی ضائع ہوا ۔یہ بھی سچ ہے کہ زمینی کٹاؤ روکنے کے لیے سمندر میں دریائی پانی کو سمندر میں چھوڑا جاتا ہے لیکن پاکستان میں 100دن سے بھی کم دن میں بارش ہوتی ہے جن دنوں میں پاکستانی دریاؤں میں طغیانی ہوتی ہے اور باقی دنوں میں پاکستانی دریا سوکھے کا منظر پیش کرتے ہیں ۔اگر ان 70سے 80دنوں میں زمینی کٹاؤ کو روکا جاتا ہے تو باقی دنوں میں سمندر پاکستانی ساحلوں کو نگلتا جاتا ہے اور یہ دورانیہ بڑھتا جارہا ہے ۔
کالا باغ ڈیم کو لے کر ہمارے ملک کی آدھی سے زیادہ سیاسی جماعتیں اپنی سیاسی دوکانوں کو چمکائے ہوئے ہیں ۔پاکستان کونسل آف ریسرچ ان واٹر ریسورسزکی جانب سے جاری کردہ رپورٹ کے مطابق پانچ دریاؤں کی زمین پنجاب بنجر ہونے کے قریب ہے ۔لاہور،لودھراں،وہاڑی،خانیوال اور ملتان میں زیر زمین 90فیصد پانی ختم ہوگیا ہے اور جو باقی 10فیصد بچتا ہے اس میں سنکھیا کی مقدار خطرناک حد تک متجاوز کرچکی ہے ۔PCRWکی دو سالہ تحقیق ظاہر کرتی ہے کہ میٹھا پانی تیزی سے کھارے پانی میں تبدیل ہورہا ہے ۔جس سے پیٹ کی بیماریا ں جنم لے رہی ہیں اور رپورٹ کے مطابق خوشاب،جہلم،لیہ ،جھنگ،سرگودھا اور فیصل آباد کازمینی پانی پینے کے قابل نہیں رہا۔پانی کو پینے کے قابل بنانے والی فیکٹریاں بغیر کسی ضابطے اور قانون کے کھارے پانی کو میٹھا پانی بنا کر مزید بیماریوں کا سبب بن رہی ہیں ۔چند ایک قدرتی اور کئی ایک مصنوعی عوامل کی وجہ سے گلوبل وارمنگ ایک عالمگیر مسئلہ بن چکی ہے ۔پاکستان میں بڑھتی ہوئی گرمی اسی گلوبل وارمنگ کا نتیجہ ہے جس کی وجہ سے پاکستان کے اکثر شہروں کا درجہ حرارت 45سے اوپر جاچکا ہے ۔درختوں کی بہیمانہ کٹائی کی وجہ سے بھی موسم میں ہونے والی تبدیلی میں تیزی آرہی ہے ۔آنے والے سالوں میں یہ تبدیلی مزید تیز ہونے کا خدشہ ہے اور قحط سالی کے دورانیے کو مزید قریب کرنے کے اسباب میں سے ایک سبب درختوں کا نہ ہونا بھی ہے ۔خدارا اپنے اردگرد درخت لگائیے اور جو درخت موجود ہیں ان کی حفاظت کیجیے اگر اس حوالے سے حکومتی مشینری کام نہیں کررہی تو اپنا احتجاج ریکارڈ کروائیے تاکہ آنے والی نسل کو بچایا جاسکے۔
؂تشنہ لب مرگئے ترے عاشق
نہ ملی ایک بوند پانی کی
الیکشن کا دور چل رہا ہے ،نگران حکومت کو ایک طرف رکھ کر اپنے پاس آنے والے قومی و صوبائی سطح کے مختلف امیدواران سے پانی ،ڈیم اور اس جیسے دوسرے مسائل کے متعلق ان کا اور ان کی جماعت کا موقف سنیے ۔اس بار اگر آپ اپنے امیدواران کو چُنتے ہوئے اپنی گلی ،نالی اور سڑک پکی کروانے،چند روپوں میں بکنے ،نوکری کا جھانسا لینے اور علاقے کے نامی گرامی بدمعاش کو چننے سے انکار کرتے ہوئے شریف النفس لوگوں کو چننے میں کامیاب ہوجاتے ہیں جو آپ کے قومی مسائل کا ادراک رکھتے ہوں اور انہیں حل کرنے میں مخلص ہوں تو آنے والے 5سال آپ کے لیے بہتر ہوسکتے ہیں ۔گلی،نالی ، سڑک اور اس ایسے دوسرے مسائل حل کرکے آپ کے ایم این ایز/ایم پی ایز آپ پر احسان نہیں کرتے بلکہ یہ آپ کا حق ہے ۔قومی سطح پر کالا باغ کے علاوہ دوسرے ڈیموں پر بھی بحث ہونی چاہیے اور جلد سے جلد ڈیم بنانے کی کوشش کرنی چاہیے ۔جس طرح پاکستانی قوم نے یکسو ہوکر دہشت گردی کے خلاف آواز بلند کی اور ڈٹ کر ان خارجیوں ،دہشت گردوں کا مقابلہ کیا ہے ایسے ہی ضرورت ہے اس وقت ہمیں پانی کے حوالے سے کام کرنے کی ۔ایسے میں اگر کوئی آپ کا قریبی شخص بھی آپ کی مخالفت کرتا ہے تو اس کو اک طرف رکھ کر اپنے کاز سے یکسو ہوکر جُڑے رہیے ۔اگر آپ بھارت کے جواب میں ایٹم بم کے دھماکے کرسکتے ہیں تو کیا آپ دو چار ڈیم نہیں بناسکتے؟


شیئر کریں:
Posted in تازہ ترین, مضامینTagged
11142