Chitral Times

Apr 19, 2024

ﺗﻔﺼﻴﻼﺕ

دوائے دل…… مستقبل کا ممکنہ سیاسی منظر نامہ……مولانا محمد شفیع چترالی

Posted on
شیئر کریں:

تمام تر اندیشوں اور قیاس آرائیوں کے علیٰ الرغم ملک میں عام انتخابات اپنی مقررہ مدت کے اندر انعقاد پذیر ہوتے دکھائی دے رہے ہیں اور عید کی تعطیلات اور انتخابی امیدواروں کے کاغذات کی جانچ پڑتال کا عمل مکمل ہونے کے بعد اب سیاست کی گرمی بازار کا آغاز ہوا چاہتا ہے۔ یہ امر محتاج بیان نہیں کہ آیندہ عام انتخابات پاکستان کے سیاسی مستقبل کے لیے غیر معمولی اہمیت رکھتے ہیں اور پاکستان کی ترقی و استحکام کے لیے یہ امر از حد ضروری ہے کہ 25جولائی کے بعد ملک میں ایک ایسی حقیقی منتخب حکومت قائم ہوجائے، جو ملک و قوم کو درپیش مسائل کے حل کی صلاحیت بھی رکھتی ہو اور جس پر قوم کی غالب اکثریت کا اعتماد بھی ہو۔ پاکستان کا آئین ریاست کے لیے برطانوی طرز کی پارلیمانی جمہوریت تجویز کرتا ہے، جس میں براہ راست انتخابات کے ذریعے پارلیمنٹ میں اکثریت حاصل کرنے والی جماعت اقتدار میں آتی ہے، جبکہ پیچھے رہ جانے والی جماعتیں حزب اختلاف کا کردار ادا کرتی ہیں۔ گویا آئین کے مطابق حکومت کی تشکیل یا تبدیلی میں عوام کی رائے اور مرضی ہی بنیادی عنصر ہوتا ہے، مگر تلخ حقیقت یہ ہے کہ عملی طور پر ایسا ہوتا نہیں ہے۔ یہاں بظاہر تو انتخابات بھی ہوتے ہیں، عوام سے رائے بھی لی جاتی ہے اور دیکھنے میں سارا انتخابی و جمہوری عمل آئین کے مطابق ہی ہورہا ہوتا ہے، مگر در حقیقت کسی کو اقتدار کے سنگھاسن پر بٹھانے یا ہٹانے کے فیصلے عموماً بند دروازوں کے پیچھے کیے جاتے ہیں اور انتخابات کا عمل محض اس خاکے میں رنگ بھرنے کے لیے ہوتا ہے، جو پہلے سے مخصوص ’’انجینئروں‘‘ نے کھینچا ہوتا ہے۔ یہ ’’خاکہ کشی‘‘ اتنی باریک، پوشیدہ اور پیچیدہ ہوتی ہے کہ اس کی بھول بھلیوں کو سمجھنا ہر کہ کسی کے بس کی بات نہیں ہے۔ بقول اقبال؂
اس کھیل میں تعیین مراتب ہے ضروری
شاطر کی عنایت سے تو فرزیں، میں پیادہ
بیچارہ پیادہ تو ہے اک مہرہ ناچیز
فرزیں سے بھی پوشیدہ ہے فرزیں کا ارادہ
اس بنا ء پر پاکستان کی سیاست کے بارے میں کوئی حتمی رائے قائم کرنا یا پیش گوئی کرنا آسان نہیں ہے، تاہم برسرزمین سیاسی حرکیات پر نظر رکھنے والے اپنے اپنے قیاس کے گھوڑے ضرور دوڑاسکتے ہیں۔ سو ہم بھی اس بازی میں اپنا’’ ٹٹو‘‘ لیے حاضر ہیں۔
آگے بڑھنے سے قبل یہ بات ذہن میں رکھنا ضروری ہے کہ2018ء کے انتخابات جس پس منظر میں ہورہے ہیں، اس میں گزشتہ حکمران جماعت مسلم لیگ ن اور ملکی اسٹیبلشمنٹ کے درمیان لڑائی سب سے بڑی سیاسی حقیقت ہے۔ کوئی لاکھ انکار یا تردید کرے، واضح سچائی یہ ہے کہ گزشتہ پانچ برسوں کے دوران قوم کا زیادہ تر وقت اس بے ننگ و نام لڑائی کی نذر ہواہے اور آیندہ عام انتخابات میں بھی اصل اور بنیادی فریق مسلم لیگ ن اور اسٹیبلشمنٹ ہی ہیں۔ اسٹیبلشمنٹ کی پہلی ترجیح یہ ہوگی کہ آیندہ انتخابات میں مسلم لیگ کے پر کاٹے جائیں اور سینیٹ انتخابات میں کیے جانے والے کامیاب تجربے کو سامنے رکھتے ہوئے تحریک انصاف اور پیپلزپارٹی کا’’ آمیزہ ‘‘بناکر ایک من پسند حکومت تشکیل دی جائے، مگر دوسری جانب تمام تر انتظامات کے باوجود اگر مسلم لیگ ن کا تیاپانچہ کرنا ممکن نہ ہوا اور وہ بدستور مزاحمت کی پوزیشن میں رہی تو پلان بی کے تحت ن لیگ کے ساتھ ہی کوئی ایسا سمجھوتا کیا جائے کہ اس سے ’’ن‘‘ فیکٹر کو ممکنہ حد تک دور کرکے شہباز شریف یا شاہد خاقان کی صورت میں’’ ش‘‘ فیکٹر نکال کر کام چلایا جاسکے۔
اس پس منظر میں ہماری فہم نارسا کے مطابق 25جولائی کے انتخابات کے بعد امکانی طور پر3صورتیں سامنے آسکتی ہیں۔ پہلی صورت یہ ہے کہ تحریک انصاف کے حق میں کافی عرصے سے چلائی جانے والی لہر انتخابی مہم کے دوران ایک ’’طوفان‘‘ میں بدل جائے اور تحریک انصاف واضح برتری حاصل کرکے وننگ اسٹینڈ پر آجائے۔ ایسی صورت میں عمران خان کے وزیر اعظم بننے میں کوئی دشواری نہیں ہوگی اور دیگر پہلوؤں کو ایک طرف رکھتے ہوئے اس کا ایک مثبت پہلو یہ ہوگا کہ ملک میں سول حکومت اور اسٹیبلشمنٹ ایک پیج پر آجائیں گے اور برسوں سے چلنے والی اس لڑائی سے کچھ وقت کے لیے سہی قوم کی جان چھوٹ جائے گی۔ یہ خوش نما منظر اس وقت تک رہے گا جب تک عمران خان خود کو حقیقی وزیر اعظم سمجھنا نہ شروع کردیں۔ مگر چونکہ خان صاحب کی افتاد طبع سے اس کی توقع رکھنا ممکن نہیں ہے اور اسٹیبلشمنٹ کے علاوہ کون ہے جو عمران خان کی افتاد طبع سے زیادہ واقف ہو۔ اس لیے یہ پہلا امکان ہمارے بہت سے دوستوں کی خواہش کے عین مطابق ہونے کے باوجود ہمیں وقوع پذیر ہوتا دکھائی نہیں دے رہا۔
دوسرا امکان جو زیادہ دل چسپ اور پہلے کے مقابلے میں زیادہ قرین قیاس لگتا ہے، یہ ہے تحریک انصاف قومی اسمبلی میں 70۔ 80سیٹوں تک محدود رہے اور پیپلزپارٹی 40تک نشستیں حاصل کرلے اور ن لیگ کے علاوہ دیگر چھوٹی جماعتوں اور آزاد ارکان کے ساتھ مل کر مخلوط حکومت بنانے کی پوزیشن بن جائے تو اس صورت میں تحریک انصاف کے لیے اقتدار میں آنے کا راستہ تو ہموار ہوجائے گا، مگر’’ المیہ‘‘ یہ ہوگا کہ دیگر جماعتوں بالخصوص پیپلزپارٹی کی جانب سے مخلوط حکومت بنانے کے لیے یہ شرط لگائی جائے گی کہ وزیر اعظم عمران خان کے علاوہ کوئی اور ہو۔ ایسی صورت میں شاید خود خان صاحب بھی پیپلزپارٹی کے وزراء پر مشتمل کابینہ کی صدارت کرتے ہوئے کچھ جھجھک محسوس کریں( اگرچہ ریکارڈ دیکھتے ہوئے اس کے برعکس کی بھی ان سے توقع رکھی جاسکتی ہے!) بہت سے مبصرین کے مطابق اگر اسٹیبلشمنٹ کے مزاج کو سامنے رکھ کر بات کی جائے تو یہی دوسری امکانی صورت زیادہ قابل عمل لگتی ہے۔ یہاں یاد رکھنے کی بات یہ ہے کہ مخدوم شاہ محمود قریشی جب پیپلزپارٹی چھوڑ کر تحریک انصاف میں شامل ہوگئے تھے تو ان کے بھائی مخدوم مرید حسین قریشی نے ان کا یہ مبینہ قول نقل کیا تھا کہ انہیں وزیر اعظم بنانے کے وعدے پر پی ٹی آئی میں شامل کروایا گیا ہے۔
تیسری صورت یہ ہوسکتی ہے کہ اسٹیبلشمنٹ کی تمام ترکاوشوں پر میاں نواز شریف کا’’ بیانیہ‘‘ غالب آجائے اور مسلم لیگ ن پنجاب میں اپنی فیصلہ کن اکثریت برقرار رکھ کر دیگر صوبوں میں دیگر اتحادی جماعتوں کی مدد سے ایک بار پھر حکومت بنانے کی پوزیشن میں آجائے۔ اس امکان کو اس لیے رد نہیں کیا جاسکتا کہ رائے عامہ کے جتنے بھی حالیہ جائزے سامنے آئے ہیں اور اس سے قبل ضمنی انتخابات کے جتنے بھی نتائج سامنے آئے، ان میں یہ بات واضح طور پرنوٹ کی گئی کہ عدالت عظمیٰ سے کرپشن کے الزامات کے تحت نااہل قرار دیے جانے کے بعد بھی میاں نواز شریف کی مقبولیت میں زیادہ کمی نہیں ہوئی بلکہ پنجاب میں ان کا اسٹیبلشمنٹ مخالف بیانیہ بہت حد تک مؤثر ثابت ہوا ہے۔ اسٹیبلشمنٹ کی نظر یقیناًاس زاویے پر بھی ہوگی اور اس کی میز پرپلان بی کے طور پر مسلم لیگ ن کے ساتھ کسی سمجھوتے کا امکان بھی رکھا ہوگا۔ پنجاب میں مسلم لیگ ن اور خیبر پختونخوا اور بلوچستان میں ن لیگ اور ایم ایم اے کوقابل لحاظ نشستیں ملنے کی صورت میں دونوں جماعتوں کی مخلوط حکومت بننا بعید از قیاس نہیں ہے۔ ممکن ہے کہ پیپلزپارٹی بھی انتخابات کے بعد مسلم لیگ ن کے بارے میں اپنی موجودہ پالیسی تبدیل کرلے اورتحریک انصاف کو اپوزیشن میں اکیلا چھوڑ کراقتدار میں شریک ہوجائے۔ مسلم لیگ ن کی حکومت بننے کی صورت میں وزارت عظمیٰ کا تاج میاں شہباز شریف کے سر سج سکتا ہے، تاہم جنرل اسد درانی کی حالیہ دنوں منظر عام پر آنے والی کتاب میں یہ’’ پیشگوئی‘‘ بھی شامل ہے کہ آنے والے انتخابات کے بعد بھی وزیر اعظم شاہد خاقان عباسی ہی ہوں گے۔ جنرل درانی کی یہ بات تجزیہ ہے یا ’’انفارمیشن‘‘ اس کا تعین انتخابات کے بعد ہی ہوسکے گا۔
shafichitrali@yahoo.com


شیئر کریں:
Posted in تازہ ترین, مضامینTagged
11119