Chitral Times

Apr 25, 2024

ﺗﻔﺼﻴﻼﺕ

صدا بصحرا …… چڑھتے سورج کے ساتھ مکالمہ…….. ڈاکٹر عنایت اللہ فیضیؔ

شیئر کریں:

ڈپٹی نذیر احمد کا ناول ’’ ابن الوقت ‘‘ زمانے کے سب سے ذہین ، سب سے ہوشیار اور نابغہ روزگار شخصیت کے بارے میں ہے وہ زمانے کی نبض کو پہچانتا تھا چڑھتے سورج کو وہ جانتا تھا مگر زمانہ اُس کا قدر داں نہیں تھا اس لئے اس کو ’’ ابن الوقت‘‘ کا طعنہ دیا گیا ۔آج کل ابن الوقت کو سیاست کو گُرو تسلیم کیا جاتا ہے ۔ اگر طعنہ دینے کی نوبت آئے تو عربی کی جگہ ٹھیٹ اردو میں ’’ لوٹا‘‘ کہا جاتا ہے۔ اگر بہتر الفاظ میں اُس کے مقام اور مرتبے کو سامنے رکھ کر شایانِ شان طعنہ دیا جائے تو ’’چڑھتے سورج کا پجاری‘‘ کہا جاتا ہے۔ اس کو گرگٹ اور سورج مکھی سے بھی تشبیہ دی جاتی ہے۔ وطن عزیز میں انتخابات کے قریب سیاستدان راولپنڈی کی گھڑیال کو دیکھ کر اپنی گھڑیوں کا وقت بدلتے ہیں وقت کے ساتھ وفاداریاں بھی بدل دیتے ہیں۔ وفاداری بدلنے والوں کے لئے اس میں کوئی قباحت نہیں۔ اُن کے بارے میں شاعر نے بڑے پتے کی ایک بات پیروڈی کے انداز میں کہی ہے ؂
تلاش کر کوئی ’’ سٹاپ‘‘ درمیاں کے لئے
نہ تو زمین کے لئے ہے نہ آسمان کے لئے
تاہم چڑھتے سورج کیلئے ان کو سنبھالنا مشکل ہوجاتا ہے کیونکہ محفل بھر چکی ہوتی ہے ان کو جگہ دینے کے لئے پہلے سے رونق محفل بنے ہوئے دوستوں کو باہر نکال کر نشستیں نکالنی پڑتی ہیں اور یہ خاصا پُر خطر کام سمجھا جاتا ہے ؂
خیال خاطر احباب چاہیئے ہر دم
انیس ٹھیس نہ لگ جائے آبگینوں کو
اور چڑھتے سورج کے پجاریوں کو جگہ دینے کے لئے آبگینوں کو ٹھیس لگانے کی لازمی ضرورت پڑتی ہے ایسے ہی چڑھتے سورج کے ساتھ ہمارا دلچسپ اور سبق آموز مکالمہ ہوا ۔
اخبار : آنے والوں نے مجلسی دوستوں کو ناراض کر دیا ہے ۔
سورج : یہ ہماری مقبولیت ہے۔
اخبار : مگر وہ کہتے ہیں کہ پتوں کو ہلانے والی ہوائیں پنڈی سے چل رہی ہیں ۔
سورج : ہوائیں شوائیں کوئی نہیں پتّے خود جانتے ہیں کہ کس وقت کہاں جا کے گرنا ہے ؟
اخبار : پتوں کو بھلا کیا معلوم؟
سورج : پتے ہواؤں کا رخ پہچان لیتے ہیں ۔
اخبار : آپ پنڈی والی ہواؤں کی طرف تو اشارہ نہیں کرتے ؟
سورج : ہوائیں جہاں کی بھی ہوں پتّے ان کے سامنے نہیں ٹھہر سکتے ۔
اخبار : مگر ایسے پتوں کا کیا بھروسہ ہے؟کب ہوا اُنہیں اڑا کے کہیں اور لے جائے؟
سورج : تمہارا کیا مطلب ہے؟
اخبار : یہ میری بات نہیں ، پر تو دو بیلہ کی غزل کا مشہور شعر ہے ؂
یہ قصیدے جو تیری شان میں ہیں
یہ قصیدے ہی اُس کی شان میں تھے
سورج : یہ سب افواہیں ہونگی میں افواہوں پر کان نہیں دھرتا ۔ میں عملی انسان ہوں ۔ مجھے کام کے لوگ چاہییءں جو اپنی سیٹ جیت سکتے ہوں ۔
اخبار: مگر تمہارے پروگرام ، منشور اور ایجنڈے کا کیا بنے گا ؟
سورج : وہ بعد میں دیکھا جائے گا ۔
اخبار : تم خزاں کے گرنے والے پتوں پر کس طرح بھروسہ کرسکتے ہو ؟
سورج : وہ میری جھولی میں آگئے ہیں کیوں بھروسہ نہ کروں ؟
اخبار : پر تو دوہیلہ کا ایک اورشعر بھی ہے ؂
یہ جو تیری وفا کے گاہک ہیں
یہ ابھی دوسری دکان میں تھے
سورج : میں شاعری واعری نہیں سنتا ۔ کام کی بات کرو۔
اخبار : کام کی بات یہ ہے کہ کام کے لوگ آقا نہیں بدلتے۔
سورج : تمہارا کیا مطلب ہے؟
اخبار : مطلب یہ ہے کہ وہ ’’ وفاداری ‘‘ بشرط استواری پر یقین رکھتے ہیں ۔ مرزا غالب نے کہا ؂
وفاداری بشرط استواری اصل ایمان ہے
مرے کعبہ میں بُت خانہ میں گاڑ دو برہمن کو
چڑھتے سورج کے سامنے اقتدار کی منزل ہے اور منزل سامنے نظر آرہی ہے۔اس لئے وہ کسی کی مخالفانہ رائے سننے پرآمادہ نظر نہیں آتا ابن الوقت یا چڑھتے سورج کے پجاری کا مسئلہ یہ ہے کہ اُس نے ہر حال میں آنے والے کا ساتھ دینا ہے وفا ، صداقت ، امانت ، دیانت اُس کے لئے بے معنی باتیں ہیں ایسی باتوں پر وہ اپنا وقت ضائع نہیں کرتا ۔ مسئلہ اُس وقت پیدا ہوگا جب چڑھتا سورج غروب ہوگا اور پجاری کو الٹے پاؤں واپس جانا پڑے گا ۔ مزے کی بات یہ ہے کہ واپسی کا سفر بھی وہ آسانی سے طے کرے گا گرگٹ کو رنگ بدلنے کا فن آتا ہے۔


شیئر کریں:
Posted in تازہ ترین, مضامین
11033