Chitral Times

Mar 29, 2024

ﺗﻔﺼﻴﻼﺕ

ایک مثالی خاتون …………..تحریر:مولوی احسان اللہ شائق

Posted on
شیئر کریں:

انسان جلد باز بھی ہے ناشکرا بھی اور ظالم بھی، بنی نوع آدم کی ان کیفیت اور جذبات اور احساسات کو رب العزت نے بڑے عجیب و غریب اندا ز میں بیان کیا ہے ۔ کبھی کہا گیا جب ہم اسے رنج و غم دیتے ہیں اور کبھی آزمائش میں مبتلا کر دیتے ہیں تو آسمان کی طرف نظر اٹھاتا ہے اور نہایت عجز و انکساری کے ساتھ کہتا ہے اس پر میرا کوئی اختیار نہیں یہ سب تو آپ کی طرف سے ہے۔پھر جب ہم ان کی آہ و بکا سن کر اس کے سر سے بلاؤں کو ٹال دیتے ہیں اور اسے اپنی نعمتوں اور رحمتوں سے سر بلند کر دیتے ہیں تو وہ بطور فخر کہتا ہے کہ یہ سب میرے زور بازو کا نتیجہ ہے ، انسان کے اس دوغلے پن جذبے کا نام ظلم ہے شکست و ریخت کو اللہ کے فیصلوں سے تعبیر کرتا ہے اور فتوحات کو اپنی کوشش و تدبر کا نتیجہ قرار دیتا ہے۔
نا شکرا اس لئے کہ اللہ کی بخشی ہوئی بے شمار نعمتوں کو بے دریغ اپنے استعمال میں لاتا ہے مگر دینے والے کی بے مثال فیاضیوں کو اعتراف نہیں کرتا ہے گردش و روز و شب کو محض ایک اضطراری عمل سمجھتا ہے کہ ٹھنڈی ہوائیں چل رہی ہیں سو چلتی رہیں گی ، بارش ہو رہی ہے سو ہوتی رہے گی مگر جب اچانک اس نظام میں خلل پڑجاتا ہے توپھر آسمان کی طرف منہ اٹھا کر چیخنے لگتا ہے ہوائیں بند کیوں ہوئیں اور بارش کرم کیوں رک گئی ؟ اے ہواؤں کو چلانے والے ہواؤں کو چلا اور اے پانی کے برسانے والے پانی برسا، پھر جب مرطوب ہوائیں نہیں چلتیں اور زمین کو زندگی بخشنے والا پانی نہیں برساتاتو یہی نا شکرے لوگ بزرگان دین کی خانقاہوں کا رخ کرتے ہیں ، کھلے میدانوں میں نماز و استقاء پڑھتے ہیں ، صدقات و خیرات بھی نکالتے ہیں مگر بعض اوقات پانی پھر بھی نہیں برستا گویاانسان کے گناہ اتنے زیادہ ہوتے ہیں کہ رحمت الٰہی جوش میں نہیں آتی قدرت طے کرتی ہے کہ نا شکرگزاروں کی اس بستی کو سزادیئے بغیر نہیں چھوڑا جائیگا۔
یہ غالباً 105ھ کا واقعہ ہے تاریخی شہر بصرہ بھی خوفناک قحط کی لپیٹ میں آگیا ۔بقول شیخ سعدی یکے قحط سالی شد اندردمشق کہ یاراں فراموش کر دن عشق (ترجمہ:ایک بار دمشق میں ایساقحط پڑا کہ یار لوگ عشق جیسی چیز کو بھی فراموش کردیا۔)
بصرہ میں بھی کچھ ایسا ہی قحط پڑا تھا کہ لوگ عشق و محبت کے لطیف و نازک جذبات کو بھول گئے تھے بلکہ ان کے سینے نفسانی خواہشوں کے ہجوم سے بھر گئے تھے وہ اپنے شکم کی آگ بجھانے کیلئے اپنے ہم جنسوں کو ارزاں قیمتوں پر فروخت کررہے تھے اولادیں ماں باپ پر گراں تھیں اور اولادوں پر ماں باپ ایک بوجھ تھے۔بیویاں شوہروں کیلئے باعث آزار تھیں اور بہنیں بھائیوں کیلئے ایک مستقبل عذاب بن گئی تھیں۔خاندانی اور علاقائی رشتوں کا تو ذکر ہی کیا خونی رشتے بھی بے اعتبار ٹھہرے عجیب نفسانفسی اور افراتفری کا عالم تھا بھوک کا عفریت اپنا خونی دہن کھولے کھڑا تھا اور تمام انسانی رشتے احساسات اور جذبات و کیفیات، عقائد و نظریات اس کی خوراک بنتے جارہے تھے۔اسی ہولناک فضا میں بصرہ کے ایک چھوٹے سے خاندان پر قیامت گزرگئی۔یہاں صرف چار بہنیں رہتی تھیں جن کے ماں اور باپ دنیا سے رخصت ہوگئے تھے اور حقیقی بھائی سے بھی محروم تھیں۔بظاہر کوئی نگران اور کفیل نہیں تھا یہ سب بہنیں مل کر محنت مزدوری کیا کرتی تھیں مگر جب شہر بصرہ قحط کی لپیٹ میں آگیا تو سارے کاروبار دم توڑ گئے اور مزدوریاں ختم ہوگئیں نو عمر 3لڑکیوں نے دو تین فاقے تو برداشت کرلئے مگر جب بھوک حد سے گزری تو کسی کو اپنا ہوش نہیں رہا۔بھیک مانگنے کی نوبت آگئی مگر کوئی کیسے بھیک دیتا کہ دینے والے کے پاس خود کچھ نہیں تھا یہ تمام بہنیں زرہ چہرے اور پتھرائی ہوئی آنکھوں سے آسمان کی طرف دیکھ رہی تھیں کہ بصرہ کا مشہور و معروف تاجر کا ادھر سے گزر ہوا فاقہ زدہ بہنوں نے آسودہ حال شخص کے سامنے دست سوال دراز کردیا۔اللہ کے واسطے ہمیں کچھ کھانے کو دو ورنہ کچھ دیر بعد ساری سانسوں کا رشتہ جسموں سے منقطع ہوجائے گا۔تاجر عتیق نے سب سے چھوٹی بہن کی طرف دیکھا جو خاموش بیٹھی تھی۔لڑکی تجھے بھوک نہیں لگی ہے کیا؟بہت بھوک لگی ہے سب سے چھوٹی بہن نے نقاہت زدہ لہجے میں جواب دیا تو پھر کسی سے روٹی کیوں نہیں مانگتی؟ تاجر نے سوال کیا؟ لڑکی نے بڑا عجیب جواب دے چھوڑا جس سے مانگنا چاہئے اسی سے مانگ رہی ہوں۔تاجر کا سوال تو تجھے ابھی تک روٹی کیون نہیں ملی لڑکی کا جواب ۔جب وقت آئے گا تو وہ بھی مل جائیگا۔لڑکی کا انداز گفتگو مبہم ضرور تھا لیکن لہجے سے بڑی استقامت جھلک رہی تھی۔تینوں بڑی بہنیں چھوٹی بہن کو بڑے غم و غصے سے دیکھ رہی تھیں اور جھنجھلا کر بولیں۔یہ ہم سب کا وقت برباد کررہی ہے آپ اسے یہاں سے لیکر جائیں۔یہ لڑکی بڑے کام کی ہے میں اسے لے کر جاتا ہوں پھر تاجر عتیق نے کچھ مخصوص رقم ان تینوں بڑی بہنوں کو حوالے کر دی چلو لڑکی تاجر نے چھوٹی بہن سے کہا اب تم میری ملکیت ہو۔بہر حال وہ اس ننھی منھی پری کو اپنے ساتھ لے جاتا ہے اور گھر کے بہت سارے کام اس بچی کے حوالے کردیتا ہے۔خلاصہ کلام یہ بچی صبح سے لیکر شام تک گھر کے سارے کام نمٹادیتی ہے اور رات کو مصلیٰ پر بیٹھ کر اللہ کے حضور گریہ وزاری کرتی ہے۔ایک دن تاجر عتیق کی طبیعت اچانک خراب ہوتی ہے وہ رات کو بستر پر کروٹیں لیتے ہوئے تھک جاتا ہے اور بستر سے اٹھ کر گھر کے سامنے باغیچے میں ٹھہلتا ہوا اس کی نظراس کمرے کی کھڑکی کی طرف پڑھتی ہے جہاں وہ ننھی منھی پری رہتی تھی۔روشنی نظر آئی تو اس کمرے کی کھڑکی سے جھانک کر دیکھا تو وہ بچی مصلیٰ پر بیٹھ کر اللہ کے حضور گریہ وزاری میں مصروف ہے صبح ہوتے ہی تاجر عتیق نے بچی کو اپنے کمرے میں بلایا اور بچی کو یہ کہتے ہوئے آزاد کردی اور فرمایا کہ مجھے آپ کا دعا چاہئے خدمت نہیں یہ بچی کون تھی(حضرت رابعہ بصریہؒ ) اکبر الہ آبادی کے اش شعر سے رخصت چاہتا ہوں
فاطمہ چمکی نہ تھی جب انگلش سے بیگانہ تھی
اب ہے چراغ انجمن پہلے چراغ خانہ تھی


شیئر کریں: