Chitral Times

Mar 29, 2024

ﺗﻔﺼﻴﻼﺕ

نوٹوں اور لوٹوں کا موسم………..محمد شریف شکیب

Posted on
شیئر کریں:

ایک صحافی دوست کا کہنا ہے کہ وطن عزیز میں جہاں موسم کا پارہ 45سینٹی گریڈ سے نیچے آنے کا نام نہیں لے رہا۔وہاں نئے نوٹوں اور پرانے لوٹوں کی بہار آئی ہوئی ہے۔نوٹوں اور لوٹوں کے درمیان تعلق کی وضاحت کرتے ہوئے ان کا کہنا تھا کہ اگر نوٹوں کی چمک خیرہ نہ کرتی تو بے پیندے کے لوٹے اتنی بڑی تعداد میں ادھرسے ادھرلڑکھتے نظر نہیں آتے۔یہ کرارے نوٹوں کاہی کمال ہے کہ لوٹے اپنی جگہ بدلتے اور ناچتے دکھائی دیتے ہیں۔ پاکستان کی سیاست میں لوٹا کریسی اور نوٹاکریسی ساتھ ساتھ چلتے رہے ہیں۔ تاہم چوتھے مارشل لاء کے دور میں اس کاروبار کو بہت فروغ ملا۔2002کے انتخابات میں پی ایم ایل کیو کے نام سے جو سرکاری مسلم لیگ بنی۔ ملک بھر سے ڈیڑھ سو کے لگ بھگ لوگ اپنی پارٹیوں کو چھوڑ کر کنگز پارٹی کے ریوڑ میں شامل ہوگئے۔ بے نظیر بھٹو کی شہادت کے بعد 2008کے انتخابات میں پیپلز پارٹی کو ہمدردی کے ووٹ ملنے کی بو سونگھ کر پیشہ ور لوٹوں نے پی پی پی کی شاخوں پر آشیانہ بنانے کا فیصلہ کیا۔ اور 90سے زیادہ لوگ سرکاری مسلم لیگ کو خیر باد کہہ کر آصف زرداری کو پیارے ہوگئے۔جب2013میں تبدیلی کی ہوا چلی اور میاں برادران کا طوطی بولنے لگا تو 121 ارکان اسمبلی سیاسی وفاداریان فروخت کرکے مسلم لیگ ن کی جھولی میں گر گئے۔2018کے انتخابات میں لوٹوں کی تعداد میں ریکارڈ اضافے کا امکان ہے۔ اب تک منتخب ارکان اسمبلی سمیت ڈھائی سوافراد کے بارے میں تصدیق ہوئی ہے کہ انہوں نے اپنی وفاداریاں بیچ دی ہیں۔ ان میں سب سے زیادہ مسلم لیگ ن کے ارکان ہیں دوسرے نمبر پر پیپلز پارٹی والوں نے اپنی بولیاں لگائی ہیں اور وہ تحریک انصاف کی شاخوں پر بیٹھ کر تبدیلی سرکاری کے گن گانے شروع کردیئے ہیں۔لوٹابننے والوں کی اکثریت ان ارکان پر مشتمل ہے جنہیں پارٹی نے ٹکٹ نہیں دیئے تھے۔ انہوں نے دوسری جماعتوں میں ٹکٹ کی ضمانت پر شمولیت اختیار کی اور جن کو وہاں بھی ٹکٹ نہیں ملا۔ انہوں نے بطور احتجاج آزاد امیدوار کے طور پر کاغذات نامزدگی جمع کرادیئے۔تاکہ کوئی تو ان سے سودے بازی کرنے آجائے۔ٹکٹوں کی تقسیم پر ہر ایک پارٹی میں ناراضگیاں پائی جاتی ہیں۔ خصوصا خواتین نے مخصوص نشستوں پر ٹکٹ نہ ملنے یا ترجیحات کی فہرست میں آخری نمبروں پر رکھے جانے کے خلاف احتجاج کیا ہے۔ گذشتہ روز لاہور میں لیگی خواتین ٹکٹ نہ ملنے پر پھٹ پڑیں ۔ کہنے لگیں کہ انہوں نے اپنے گھروں میں بریانیاں بنا کرتقسیم کی تھیں۔ بکروں کے صدقے دیئے تھے۔ ان بیش بہا قربانیوں کے باوجود انہیں محروم رکھا گیا۔ٹکٹوں کی تقسیم میں سب سے زیادہ ’’ بے انصافی‘‘ کا الزام تحریک انصاف پر لگایا جارہا ہے۔ٹائیگرز کو شکوہ ہے کہ پارٹی نے دیرینہ کارکنوں کو نظر انداز کرکے دوسری پارٹیوں سے پیراشوٹ کے ذریعے پارٹی پلیٹ فارم پر اترنے والوں کو ٹکٹوں کی تقسیم میں ترجیح دی ہے۔ جس پر پارٹی کو وضاحت شائع کرنی پڑی کہ قومی اسمبلی کے لئے پارٹی نے 178 افراد کو ٹکٹ جاری کئے ہیں جن میں سے 104ٹکٹ پارٹی کے اپنے کارکنوں کو دیئے گئے۔ مسلم لیگ سے پی ٹی آئی میں شامل ہونے والے 22اور پیپلز پارٹی سے آنے والے 18افراد کو ٹکٹ دیئے گئے۔آزاد حیثیت سے انتخاب جیت کر پی ٹی آئی میں شامل ہونے والے 34افراد کو ٹکٹ جاری کئے گئے۔ تحریک انصاف کو یہ اعزاز حاصل ہے کہ اس نے اپنے منتخب ارکان اسمبلی کو خود ہی سینٹ الیکشن میں نوٹوں کی چمک دیکھ کر لوٹا بننے کے الزام میں پارٹی سے نکال دیاتھا۔اور نکالے گئے بیشتر افراد پارٹی ہی چھوڑ گئے۔عام انتخابات سر پر ہوں۔ اور اپنے درجنوں منتخب ارکان کو سیاسی ا قدار اور اصولوں کی خلاف ورزی پر نکال باہر کرنا بہت رسک کا کام تھا۔ جو صرف عمران خان ہی لے سکتا ہے۔ جس کا انہیں کریڈٹ ضرور دینا چاہئے۔ انہوں نے اصولوں کی خاطر سیاسی نقصان اٹھانے کا رسک لیا۔ اگر دوسری جمہوری پارٹیاں بھی ان کی تقلید کریں تو سیاست سے لوٹاکریسی کا خاتمہ ہوسکتا ہے۔وفائیں بیچنا اور بھلانا اگرچہ قابل دست اندازی پولیس جرم نہیں۔ تاہم یہ امید رکھنی چاہئے کہ جو لوگ نوٹوں کی خاطر ہمارے ووٹ اور اپنی وفاداریاں بیچتے ہیں کہ ایک نہ ایک دن کچھ شرم و حیا آجائے گی۔


شیئر کریں: