Chitral Times

Mar 28, 2024

ﺗﻔﺼﻴﻼﺕ

ایک روپیہ ٹیکس…………. تحریر:۔ قمر الحسن گلگت

Posted on
شیئر کریں:

جناب بابر حیات تارڑ صاحب یہ آپ کیا کہہ رہے ہیں ۔ کہ آپ ایک روپیہ بھی ٹیکس نہیں دے رہے ہیں ۔آپ کو شاید یہاں کے بارے میں کچھ بھی نہیں معلوم یا کہیں آپ گھنسارا سنگھ بننے کی کوشش تو نہیں کر رہے ہیں ۔ کیا آپ یہاں کے متعلق النان بادشاہ ہیں یا یہاں کے معض چیف سکریٹری اور وہ بھی علاقے کا خادم ۔ آپ یہاں بادشاہ بننے کی کوشش نہ کریں اگر آپ کو گلگت بلتستان سے لئے جانے والے بہت سارے ٹیکسوں کے بارے میں معلوم نہیں تو آجاؤ ہم تمہیں بتا تے ہیں کہ یہاں سے کتنا ٹیکس پاکستان کو جاتا ہے ۔ کیا سی پیک کانام سنا ہے اس سے واقف ہیں؟ کیا یہ ان علاقوں سے گزر کر جا نہیں رہی ہے اور کیا پاکستان اسی کے بل بوتے پر ترقی کی راہ پر گامزن ہونے کی بات نہیں کر رہا ہے اور فخر نہیں کر رہا ہے ۔ اسی کی وجہ سے ہی قسم قسم کے منصوبے پاکستان کے ایوانوں میں منظور نہیں ہو رہے ہیں ہ اس کے علاوہ کیا سوست کسٹم سے پاک چین سرحدی تجارت سے پاکستان کے خزانے میں اربوں نہیں جاتے ہیں اگر ایک دفعہ اس کو بند کر دیا جائے نا پھر پتہ چلے کی ٹیکس یہا ں سے کتناجاتا ہے ۔ ارے بابر حیات صاحب آپ اتنے بھی لا علم نہیں ، یہ جو بل کھاتی ندیان شور کرتے دریا اور یہ دھدیالے نالوں کا پانی کہاں جاتا ہے اس سے ریالٹی کے نام پر پاکستانی حکمران کتنا کھاتے ہیں اور اسی پانی سے پاکستان میں کتنی شادابی آتی ہے ۔ ارے گلگت بلتستان کے اوپر سے جو انٹرنیشنل ائر لائن کی جہازیں گزرتی ہیں تو ان سے کتنا ٹیکس وصول کیا جاتا ہے ۔ ہر نیٹ ورک کے کارڈ کی کٹوتی کس مد میں کی جارہی ہے اور ہاں ہر چھوٹے سے چھوٹے ملازم کی تنخواہ سے بھی کٹوتی کس مد میں کی جارہی ہے ۔ تمام قیمتی پتھروں پر ٹیکس کہاں جاتا ہے اگر ہم آپ کو نہیں دیتے ہیں تو ۔ یہ جو سیاھ کے نام سے لوگ آتے ہیں اوعر ان کوبصورت علاقوں کی سیر کرکے واپس جاتے ہین تو یہ سارا زرمبادلہ کہاں جاتا ہے ۔ اب ان سب سے بھی بڑھ کر آپ کو ایک اور بات بتائی جائے جس کا تو آپ کو یقیناً علم نہیں ہوگا کبھی گلگت بلتستان میں گھوم پھر کر دیکھا ہے کہ جابجا سرسبز ہلالی پرچم ہر شہر خموشاں میں کیوں لہرا رہے ہیں ۔ کیا گلگت بلتستان کے باسی ہزاروں نہیں تو سینکڑوں جانوں کا نذرانہ دے کر ملک پاکستان کی سرحدوں کی حفاظت کی ہے اور ہر سرحد پر اس علاقے کے سپوتوں کا خون ناحق بہا ہے اور جم گیا ہے کیا اس سے بھی آپ لا علم ہیں ۔ یا کہ خود کو ان سے دور رکھا ہے ۔ ہم کہتے ہیں ہم پاکستانی ہیں ہمیں آئین میں جگہ دو ہم ٹیکس بھی دیں گے اور ہر وہ حکم مان لیں گے جو ملک کے دوسرے صوبوں پر ہوتے ہیں مگر آپ خود اس کو نہیں چاہتے ہو اور اوپر سے طعنہ بھی دیتے ہو کہ تم ایک روپیہ بھی ٹیکس نہیں دیتے ہو۔اب بتاؤ تم نے کیا کمال کر دیا ہے آپ سے تو ایک گائینی کالو جسٹ کو لگانے کا بھی دم نہیں اور سائل کو اپنی دھمکیوں سے ڈرا رہے ہواور بس ادھر ادھر کی ہانکی کر رہے ہو ۔ یہاں سے جن شکلوں میں حکومت پاکستان کے خزانے میں ٹیکس جاتا ہے ان مین سے مختصراً یہ کہ یہاں کے معدنیات ، منرل ، دریا ، پہاڑ ، ٹوریزم ، سوست بارڈر ، کسٹم ، چی پیک ، موبائل نیٹ ورک کے کارڈ ، ملازموں کی تنخواہوں میں کٹوتی، وی بوک ،وغیرہ کے علاوہ ملک کے کونے مین کونے مین بہنے والے گلگت بلتستان سے تعلق رکھنے والے پاک فوج کے جوانوں کے کون کی شکل میں ٹیکس اور تمہیں کس قسم کا ٹیکس چاہئے ، کیا تم خود بھی اتنا ٹیکس دیتے ہو ۔اس کے علاوہ اور تمہیں کون سا ٹیکس چاہئے جس کا تم مطالبہ کرتے ہو ۔ بابر صاحب آپ کو یہاں کے سادہ مگر بہادر اور قربانی دینے والے لوگ کبھی بھی آپ کو گھنسارا سنگھ بننے نہیں دینگے اور اگر آپ یہی چاہتے ہو تو وہ بھی کر کے دیکھو اسی گھنسارا سنگھ کے نحل سے تجھے بھی اسی طرح نکلنا پڑے گا اس لئے خدا را خدا را حاکم بنے کی بجائے خادم بن کر سوچیں اور اس بے آئین خطے کی خدمت
کریں اور دعائیں لیں ۔ بلکہ تم یہاں کا نمک کھاتے ہوا اس لئے یہاں کی نمائیندگی کرنی چاہئے اور پاکستانی حکمرانوں کو اس علاقے کے لوگوں کی محرومیوں کا زکر کر کے ان کی ترجمانی کرنی چاہئے اس سے پہلے جتنے بھی چیف سکریٹری صاحبان یہاں آئے ہیں وہ ایک مخلص اور انسان دوست آفیسروں کی طرح ہو کر گزرے ہیں ۔ان کو اب لوگ ہر وقت اچھے کردار کے ساتھ یاد رکھتے ہیں ۔ اب بھی وقت یہ انسان بنو اور انسانیت کے ساتھ علاقے کی کدمت کرو اور ان لوگوں کو مجبور نہ کرو کہیں ان کے اندر موجود دبا ہوا لاوا پھٹ ہی نہ جائے جب یہ ایک دفعہ متحد ہو کر باہر آئیں نا تو کسی کو بھی نہیں بخش دیتے ہیں چاہے اس وقت کا گھنسارا سنگھ ہو یا موجودہ بابر حیات تارڑ۔ آپ شائد اس بات سے بھی لا علم ہیں کہ انقلاب چھوٹی چھوٹی باتوں سے بھی آیا کرتے ہیں ۔


شیئر کریں: