Chitral Times

Mar 28, 2024

ﺗﻔﺼﻴﻼﺕ

54ارب کے ڈوبے قرضے………. محمد شریف شکیب

Posted on
شیئر کریں:

سپریم کورٹ نے قرضے لے کر معاف کرانے والی 222کمپنیوں کو نوٹس بھیج دیا ہے۔ ان کمپنیوں نے قومی خزانے سے 54ارب روپے قرضہ لے کر اپنے اثر و رسوخ استعمال کرکے معاف کرایا تھا۔ چیف جسٹس نے اپنے ریمارکس میں قرض نادہندگان کی جائیدادیں ضبط کرنے اور قرضے معاف کرنے کو غیر قانونی قرار دینے کا عندیہ دیا ہے۔ چیف جسٹس کا کہنا تھا کہ قرضے معاف کرانے والے آج بھی لینڈ کروزر اور پراڈو گاڑیوں میں گھوم رہے ہیں۔ قومی خزانے سے اربوں روپے لے کر ہڑپ کرنے والوں کو معاف نہیں کیا جاسکتا ان سے ہر قیمت پر وصولیاں کی جائیں گی۔پاکستان جیسے ترقی پذیر ملک میں سرکاری وسائل پر عیش کرنا ایک مخصوص طبقہ اپنا حق سمجھتا ہے۔ ان میں اکثریت تو سیاست دانوں کی ہے تاہم ان میں جاگیر دار، سرمایہ دار، اعلیٰ سرکاری افسران، بڑے بڑے تاجراور برآمدکنندگان شامل ہیں۔ زرعی مقاصد، کاروبار یا کارخانے لگانے کے لئے قرضہ لینا کوئی معیوب بات نہیں۔ ساری دنیا میں مالیاتی ادارے ان کاموں کے لئے قرضے جاری کرتے ہیں۔ ان قرضوں کو بروئے کار لاکر زرعی و صنعتی پیداوار حاصل کرنے کے ساتھ لوگوں کے لئے روزگار کے مواقع بھی پیدا کئے جاتے ہیں جس سے معیشت کا پہیہ چلتا رہتا ہے۔مگر ہمارے ہاں کا دستور باقی دنیا سے مختلف اور نرالا ہے۔ یہاں صرف بااثر لوگوں کو ہی قرضہ ملتا ہے۔اور وہ قرضہ کبھی واپس نہیں آتا۔قرض خوروں کی اکثریت قومی ایوانوں میں بیٹھی ہوتی ہے اور اپنا سیاسی اثر و رسوخ استعمال کرکے انہیں معاف کراتی ہے۔ ان قرضوں کو سیاسی رشوت کے طور پر بھی استعمال کیا جاتا ہے۔ جب قرضہ دینے کی بات آجائے تو یہ لوگ حاتم طائی کی قبر پر لات مارکر بیک جنبش قلم کروڑوں کے قرضے جاری کرتے ہیں۔ لیکن اپنی جیب سے کسی کو ہزار پانچ سو روپے دینے کے روادار نہیں ہوتے۔ قومی وسائل کو بے دردی سے لوٹ کر ہضم کرنے والے ڈکار بھی نہیں لیتے۔ تاکہ ان وسائل کے اصل مالکوں یعنی عوام کو اس کی خبر نہ ہوجائے۔اگر کوئی غریب کاشت کار اپنی پیداوار بڑھانے کے لئے زرعی قرضہ حاصل کرنا چاہے توجوتیوں کے چار جوڑے گھسانے کے بعد اسے چار پانچ ضمانتوں پر ایک لاکھ کا قرضہ ملتا ہے۔ لیکن چالیس پچاس کروڑ کا قرضہ لینے والوں کے لئے معمول کے قواعد و ضوابط کو پورا کرنے کی بھی کوئی قید نہیں۔ 2015میں ملاکنڈ ڈویژن خاص طور پر چترال میں ہولناک سیلاب سے لوگوں کی تیار فصلیں، پھلوں کے باغات، زرخیز زمینیں اور رہائشی مکانات تباہ ہوگئے۔ وہ اپنے ذمے واجب الادا لاکھ دو لاکھ کے زرعی قرضے کہاں سے ادا کرتے۔ اس وقت کے وزیر اعظم نے عوامی مطالبے پر چترال کے متاثرین کے ذمے زرعی قرضے معاف کرنے کا اعلان کیا۔متاثرین کو یک گونہ تسلی ہوگئی کہ تباہ شدہ اراضی اور مکانات کی بحالی اپنی جگہ۔ قرضہ تو معاف ہوگیا۔ اس دوران ضلعی سطح پر کچھ بااثر لوگوں نے کمرشل بینکوں سے لئے گئے اپنے کروڑوں روپے کے قرضے بھی معافی سکیم میں شامل کرنے کی کوشش کی۔ زرعی قرضوں کا مجموعی حجم چالیس کروڑ سے بھی کم تھا۔ دیگر غیر زرعی قرضہ جات ملاکر ڈیڑھ ارب روپے کی معافی کا کیس تیار کیا گیا۔ جسے وزارت خزانہ نے مسترد کردیا۔ زرعی قرضے لینے والے مطمئن ہوکر بیٹھ گئے تھے۔ دو سال بعد زرعی بینک کی طرف سے انہیں نوٹس بھیج دیئے گئے اور ان غریبوں سے قرضہ سود سمیت وصول کیا گیا۔ کسی نے زمین بیچ کر قرضہ چکایا تو کوئی گائے بیل فروخت کرکے گلو خلاصی پاسکا۔بعض لوگوں کو پرانا قرضہ سود سمیت
چکانے کے لئے مزید قرضے لینے پڑے۔قومی وسائل پر جتنا حق سندھ کے وڈیروں، بلوچستان کے سرداروں، پنجاب کے چوہدریوں اور خیبر پختونخوا کے خوانین ، اعلیٰ افسروں اور بااثر افراد کا ہے ۔ اتنا ہی حق چترال ،دیر، بونیر، شانگلہ ، سوات ، بٹگرام، کوہستان، تورغر، ہنگو، کرک اور لکی مروت کے غریب کاشت کارکا بھی ہے۔ پشاور، چارسدہ، نوشہرہ، صوابی، ہری پور ، ایبٹ آباد، کوہاٹ، بنوں اور ڈیرہ کے چھوٹے تاجر اور دکاندار کا بھی ہے۔ اگر دو چار لاکھ کے قرضے غریبوں سے سود اور جرمانے سمیت وصول کئے جاتے ہیں اور قرضہ واپس کرنے کی استطاعت نہ رکھنے والوں کی جائیدادیں ضبط کی جاتی ہیں تو بڑے مگر مچھوں سے بھی قومی وسائل وصول کرنے ہوں گے۔ تب ہی اس غریب ملک کی معیشت آگے بڑھے گی۔ عدالت عظمیٰ اگر قرضہ معاف کرنے کو جرم قرار دیدے تو اس ملک اور یہاں کے غریب عوام کا بہت بھلاہوگا۔اور وہ منصف اعلیٰ کو عمر بھر دعائیں دیں گے۔


شیئر کریں: